اتیکا کے علاقے میں ملاکاسا میں واقع پناہ گزین کیمپ کے بہت سے کیمپوں میں سے ایک ہے۔
ملاکاسا میں واقع پناہ گزین کیمپ اتیکا کے علاقے میں بہت سے کیمپوں میں سے ایک ہے۔یہ ایتھنز سے 40 منٹ ٹرین کے سفر کی دوری پر ہے اور 2016 میں یونان میں ہجرت کی بڑی لہر کے نتیجے میں بنایا گیا تھا۔ اس موسم گرما کے شروع میں، مختلف ایجیئن جزیروں کے استقبالیہ مقامات سے آنے والے مہاجرین کی وجہ سے، رہائشیوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا۔ جیساکہ ان کے رہنے کے لیے اتنے کنٹینر موجود نہ تھے، وہ لوگ خیموں میں رہنے پر مجبور تھے۔ اس وجہ سے کیمپ میں رہائشی حالات خراب ہو گئے۔ گرمی کے موسم میں، سورج طلوع ہوتے ہی وہ اپنے خیموں کو چھوڑ کر گرمی سے نمٹنے کے لئے درختوں کے نیچے بیٹھنے پر مجبور ہوجاتے تھے۔ انہیں نیم گرم پانی دیتے، جو ایک گھنٹہ میں ہی گرم ہوجاتا۔ اس صورتحال کو میڈیا نے 27 اگست تک نہ اٹھایا، جب تیز بارش کے باعث پانی اور کیچڑ سے کیمپ میں سیلاب آگیا اور خیموں میں رہنے والوں لوگوں کے لئے حالات اور بھی خراب ہوگئے۔ گرمی کی لہر اور بارش کی وجہ سے لوگوں نے اپنا صبر کھو دیا اور اسی وجہ سے ان میں سے درجنوں نے احتجاج کیا جوکہ نیشنل روڈ بندش کا باعث بنا۔ انہوں نے کیمپ کے داخلی راستوں کو بھی بند کر دیا جس کا مطلب یہ تھا کہ وہاں کام کرنے والے کیمپ داخل نہیں ہوسکتے تھے، اور اس سے مختلف تنظیموں کے دفاتر کو نقصان پہنچا ہے۔
یہ مضمون پچھلے پانچ مہینوں میں جو کچھ بھی میں نے ملاکاسا کیمپ میں دیکھا اور رہائشیوں اور تنظیموں کے کچھ مینیجروں کے ساتھ انٹرویو کر کے حاصل کردہ معلومات پر مبنی ہے۔
3 اکتوبر 2018 کو، میں نے ملاکاسا کے کیمپ میں مہاجرین برائے تعلیم کوڈینیٹر مسٹر کوستاس کلیمیس سے گفتگو کی۔
2016 کی گرمیوں میں پناہ گزینوں کی آمد میں اضافے کے بعد ملاکاسا میں پناہ گزین کیمپ کو رہائش گاہ کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔ شروع شروع میں لوگوں کو خیموں میں رکھا گیا تھا، لیکن جب رہائشیوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا تو وہاں کنٹینر لائے گئے۔ آج، تین سال سے بھی کم عرصے میں، یہاں 192 کنٹینر، دو بڑے کنٹینر (بنیادی طور پر دو بڑی سفید عمارتیں) ہیں، ایک سامنے ہے اور ایک پہاڑ کے پیچھے ہے، اور تقریباً 40 کے قریب خیمے ہیں۔ میں نے “تقریباً” کہا کیونکہ ان کی تعداد روزانہ کم ہوتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ان کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جائے اور انہیں کنٹینرز میں تبدیل کیا جائے تاکہ سب لوگوں کو ایک جسے معیارات سے ہم آہنگ کیا جاسکے۔ کنٹینر میں رہنے والوں کے پاس ائر کنڈیشنگ، نجی باتھ روم کی سہولیات اور کھانا پکانے کے لئے ایک باورچی خانہ موجود ہے۔ خیموں میں رہنے والوں کو اجتماعی غسل اور شاور استعمال کرنا پڑتا ہے، ان کے پاس بجلی بھی نہیں ہے اور کھانا فوج کی طرف دیا جاتا ہے۔ یہی چیز فراہم کردہ سہولیات میں عدم مساوات پیدا کرتی ہے۔ سرکاری فہرستوں کے مطابق، یہاں 1،410 افراد رہتے ہیں۔ جن میں 40 نابالغ تنہا بچے بھی ہیں، جو شدید تشویش کا شکار ہیں۔ وہ کیمپ کے مخصوص حصوں میں رہتے ہیں، جن میں اکثر کنٹینروں میں رہتے ہیں، حالانکہ دو ایسے بھی ہیں جو اپنے جاننے والے لوگوں کے ساتھ خیمے میں رہتے ہیں۔ ان کی عمریں 3-4 سے 17 سال تک ہیں۔
اگلے ہی دن (4 اکتوبر) کو، ہجرت کی بین الاقوامی تنظیم (IOM) نے اسی سوال کا ایک مختلف جواب دیا۔
جب اس سینٹر نے پہلی بار کام کرنا شروع کیا تو اس میں 500 افراد آباد تھے۔ آج یہاں 1،200 رجسٹرڈ افراد ہیں۔ یہاں آبادی میں پہلا اضافہ 1000 افراد کے ساتھ اپریل 2016 میں ہوا تھا اس کے بعد جون 2017 میں 1،300 کے ساتھ۔ وہاں 20 خیمے اور 200 کنٹینر ہیں۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ خیموں میں رہنے والے باقی افراد کو ماہ کے آخر تک کنٹینروں میں منتقل کردیا جائے گا اور خیموں کو اتار دیا جائے گا۔
تو، کیسا لگتا ہے خیمے میں رہنا؟
علاء شام سے آئے ہیں۔ وہ اپنے ملک سے ایک ٹانگ کے بغیر آئے ہیں اور کشتی کے ذریعہ ترکی سے مئتئلینی پہنچے ہیں۔ اس کے بعد وہ ملاکاسا آۓ جہاں وہ اپریل سے خیمے میں رہ رہے ہیں۔ “خیمے میں زندگی بھیانک ہے۔ شام میں بمباری اور اس کے چاروں طرف تباہی سے بھی بدتر ہے۔ کھانا بھی ناگوار ہے، بلکل ناقابل قبول ہے۔ روٹی باسی ہوتی ہے۔ حالات خراب ہیں۔ وہ کھانا پکاتے ہیں، پیک کرتے ہیں اور یہاں لے آتے ہیں۔ کبھی کبھی تو وہ کچا کھانا لے آتے ہیں۔ میری ایک ٹانگ نہ ہونے کے باوجود انہوں نے مجھے خیمے میں جگہ دی۔ آپ کو کیا لگتا ہے میری ذہنی حالت کیسی ہے؟
آفرین سے تعلق رکھنے والی فاطمہ سے تین بچوں کی ماں ہیں۔ وہ پانچ ماہ قبل یونان آئی تھیں۔ ان میں سے تین ماہ انہوں نے ایک جزیرے پر گزارے اور آخری دو ماہ ملاکاسا کیمپ کے خیمے میں۔ وہ ہمیں کہتے ہیں کہ کنٹینر نہیں ہیں۔ ہم نے جزیرے کو اس لئے چھوڑا تھا کہ ہماری درجہ بندی کمزوروں میں کی گئی تھی، پھر بھی ہم یہاں ہیں۔ میری ڈھائی سالہ بیٹی کھانا پکانے والے تیل سے جل گئی۔ مجھے خود ہی اس کی دوائی لانی پڑی اور خود ہی اس کی دیکھ بھال کرنی پڑی۔ میرے بچے چھوٹے ہیں اور جو کھانا وہ ہمیں لا کر دیتے ہیں وہ نہیں کھاتے، چاہے میں کہوں بھی۔ یہاں خیمے میں کوئی کچن نہیں ہے اور اگر آپ باہر کھانا بنا رہے ہو تو بچوں کو چھوڑنے کی جگہ نہیں ہے۔ میں حاملہ ہوں اور مجھے اپنے پیٹ میں موجود بچے کا ڈر ہے۔
وزارت دفاع ان لوگوں کو کھانا مہیا کرتی ہے جن کے پاس باورچی خانہ نہیں ہے، یعنی خیموں میں رہنے والے تمام افراد کو۔
جب میں نے مسٹر کلیمیس سے پوچھا کہ وہ کھانے کے بارے میں کیا سوچتے ہیں تو، انہوں نے کہا:
“میں نے اسے چکھا ہے، ایک بار اعتراف بھی کیا ہے۔ مجھے اس میں کوئی غلط چیز نہیں ملی۔ہوسکتا ہے کہ کسی نوجوان شخص کے لئے یہ مقدار میں بہت کم ہو۔ میری واقعی میں اس بارے میں کوئی رائے نہیں ہے، کیوں کہ یہ میری ذمہ داری ہی نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ کھانا 4000 لوگوں کے لئے پکایا جاتا ہے۔ نہ صرف اس کیمپ کے لیے، بلکہ اس خطے کے تمام کیمپوں کے لئے: ہر جگہ رٹسونا، تھیوا، انوفیتا، سکمتاری۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ اکتوبر کے آخر تک سب کو کنٹینرز میں شامل کرلیں تاکہ ان کا اپنا باورچی خانہ ہو اور وہ اپنا کھانا خود بنا سکیں۔
رہائش اور کھانے کے معاملات سے ہٹ کر، کیمپ کے رہائشی ڈاکٹروں کے سوالات سے بھی پریشان ہیں۔ آئی او ایم کے مطابق، ہیلینک مرکز برائے امراض قابو اور روک تھام (ایچ سی ڈی سی پی) کیمپ کے رہائشیوں کی طبی بہبود اور علاج کے لئے ذمہ دار ہے۔ میں نے ان تین نرسوں سے بات کرنے کا انتظام کیا جو ہفتے کے دنوں میں کیمپ میں افرادی قوت روزگار تنظیم (او اے ای ڈی) کے کمیونٹی سروس پروگرام کے تحت کام کرتی ہیں اور خاص طور پر میونسپلٹی آف اورپوس میں۔
“بنیادی طور پر ہم یہاں HCDCP کو مدد فراہم کرنے کے لئے حاضر ہیں، جو کہ کیمپ کے رہائشیوں کو بنیادی صحت کی خدمات اور ابتدائی طبی امداد فراہم کرتا ہے۔ ہم روزانہ کی بنیاد پر بچوں اور بڑوں کا معائنہ کرتے ہیں، ہمیشہ ڈاکٹر کی موجودگی میں، اور ہم ڈاکٹر کی موجودگی میں ویکسین بھی دیتے ہیں۔ عام اصطلاحات میں، ہم ڈاکٹروں کو مدد فراہم کرتے ہیں جو تمام فیصلے لیتے ہیں اور کسی بھی واقعے کے ذمہ دار ہیں۔ یہاں دو ڈاکٹر اور تین نرسیں ہیں۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ کیا یہ کافی ہے، تو میرا جواب نہیں یہ کافی نہیں ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، ہر 100 افراد کے لئے ایک ڈاکٹر اور ایک نرس ہونی چاہئے۔ جب میں نے نرس سے پوچھا جو بچوں کے مرکز میں مدد کرتی ہیں، وہ کون سی صحت کی پریشانیاں ہیں جن کا سامنا مریضوں کو عام طور پر کرنا پڑتا ہے تو، انہوں نے جواب دیا:
“میں بچوں کو جلد کے انفیکشن، وائرس اور طرح طرح کے انفیکشن سے متاثر دیکھتی ہوں، لیکن زیادہ تر میں ہنگامی حالات سے نمٹتی ہوں۔ جلد میں انفیکشن بنیادی طور پر حفظان صحت کی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ہوتے ہیں، کیوں کہ بچوں نے خود کی دیکھ بھال کرنے کا طریقہ نہیں سیکھا۔ انفیکشن اور وائرس کے پھیلنے کا انحصار فرد کی حفظان صحت کی حالت اور ان کے رہائشی حالات پر ہوتا۔ میرے خیال سے صابن اور پانی سب کے لئے دستیاب ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مہاجرین کی تھکن کے ساتھ ساتھ ان کے حالات بھی انہیں حفظان صحت کی اچھی عادات کو اپنانے سے روکتے ہیں۔ صابن اور پانی کا استعمال کریں، دہوئیں، اس بات کو یقینی بنائیں کہ اپنے بچوں اور تمام کپڑوں صاف صتھرا رکھیں۔ یہاں ایک لانڈری ہے اور اسٹور روم کی انچارج خاتون ڈٹرجنٹ بھی دیتی ہیں تاکہ لوگ اپنے کپڑے دھوسکیں۔ لوگوں کو اپنی اور اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرنی ہوگی۔ سب لوگ اپنی دیکھ بھال کرنے کے خود ذمہ دار ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہاں پانی کی فراہمی مجود ہے، کیوں کہ مجھ سے بار بار پوچھا جاتا ہے، اور جہاں تک میں دیکھ سکتی ہوں، تمام بنیادی چیزیں فراہم کی گئیں ہیں۔ لہذا یہ سوال آپ کی اپنی عادات کا ہونا چاہئے۔
فاطمہ کے مطابق تاہم “یہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ میں نے اپنی بیٹی کو کیمپ کے بیت الخلا میں نہلایا اور وہ دھبوں کے ساتھ باہر آئی۔ اب میں اپنے بچوں کو خیمے کے پیچھے، ابلتے پانی اور بالٹی میں کھڑا کرکے نہلاتی ہوں۔
عراق سے تعلق رکھنے والے 18 سالہ محمد نے ہم سے حفظان صحت کی خدمات کے بارے میں بات کی۔ وہ ابھی تقریبا ایک سال سے ملاکاسا کیمپ میں ہیں۔ انہوں نے کہا ، “یہاں ایک میڈیکل سینٹر ہے اور ایک ڈاکٹر بھی”، لیکن میڈیکل سینٹر چھوٹا ہے اور ٹیم بھی اتنی بڑی نہیں ہے۔ ادہر ایک فارسی ترجمان موجود ہے لیکن عربی کا نہیں ہے۔ ہم میں سے آدھے لوگ یہاں عربی بولتے ہیں۔ ہسپتال میں ملاقات کے لئے ایک مہینے کی لمبی فہرست ہے۔ تب تک مریض مر چکا ہوتا ہے۔
ترجمانوں کے موضوع پر نرسوں اتفاق ظاہر کیا۔
“ہماری تنظیم ترجمان فراہم نہیں کرتی ہے۔ ہم تو ڈاکٹر بھی کو فراہم نہیں کرتے، تو لہذا ہمیں میڈیکل ٹیم نہیں سمجھا جاتا ہے۔ ہم ڈاکٹر مہیا کرنے والی ٹیم کی نگرانی میں طبی خدمات فراہم کرتے ہیں۔ اور وہی ہیں جو خدمات کی فراہمی کے حوالے سے آپ کے سوالوں کے جواب دے سکتے ہیں۔ میں صرف اتنا کہہ سکتی ہوں کہ میں روزانہ 7 گھنٹے اور 40 منٹ کام کرتی ہوں، اور اس دوران مجھے کبھی بھی اتنا وقفہ نہیں ملتا ہے کہ میں یہ کہہ سکوں کہ میں تھوڑی دیر کے لیے رک گئی اور کچھ نہیں کیا ہو۔
جب میں نے فاطمہ سے پوچھا کہ ڈاکٹروں نے ان کی بیٹی کے معاملے پر کیا کہا تو اس نے جواب دیا:
انہوں نے مجھے اسپتال لے جانے کے لئے کہا، لیکن میں کیسے لے کر جاتی؟ یہ وہ جگہ نہیں جہاں میں بڑی ہوئی، مجھے معلوم نہیں کہ ہسپتال کہاں ہے، میں یونانی زبان نہیں بول سکتی۔ وہ ایمبولینس نہیں بھیجتے۔ جب تک کہ آپ مر نہ جائیں۔”
الا کا ڈاکٹروں کے بارے میں یہ کہنا تھا:
“انہیں کوئی پرواہ نہیں ہے، وہ کسی چیز میں شامل نہیں ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ان کو دیکھانے کے لیے جائے تو وہ انہیں صرف ایک دو گولی دیتے ہیں، کہتے ہیں اللہ آپ کے ساتھ رہے، وہ آپ سے یہ بھی نہیں پوچھتے کہ آپ کیسے ہیں، کوئی پرواہ نہیں ہے، آپ کو ترجمان بھی نہیں مل سکتا ہے۔ آپ کو ترجمان کے ملنے کا انتظار کرنا ہوگا۔ اسی طرح جیسے آپ کو کیمپ کے کسی ملازم کی ضرورت ہو تو آپ کو انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ”
بہت سارے ایسے لوگ ہیں جو یونان آنے پر افسوس کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر انہیں معلوم ہوتا کہ یہاں چیزیں اس طرح کی ہوتیں ہیں، تو وہ اپنے گھر میں بم دھماکوں کے ساتھ ہی رہتے۔ ہم ذلت، ناانصافی یا استحصال کو قبول نہیں کریں گے۔ ہم اس طرح کے سلوک کے اہل نہیں ہیں۔ بہت سے کام صحیح طریقے سے نہیں کیے جارہے بلکہ وہ اس وقت تک نہیں رکیں گے جب تک کہ ان لوگوں کو سزا نہ ملنا شروع ہوجائے۔مجھے امید ہے کہ آپ سب جو یہ الفاظ پڑھ رہے ہیں انھیں اندازہ ہوگا کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور سمجھ سکتے ہیں کہ ہمارے لئے کتنی مشکلات ہیں۔ میں امید کرتی ہوں کہ آخر میں ہم محفوظ اور مستحکم ہو کر اپنے ملک واپس جاسکیں گے۔
* “مہاجر پرندے” ٹیم کے نئے رکن کی حیثیت سے، میں نے فیصلہ کیا کہ میرا پہلا مضمون اس کیمپ کے حالات کے بارے میں ہونا چاہئے جس میں میں گذشتہ پانچ ماہ سے رہ رہی ہوں۔
Photos by Narin Meho
Add comment