یہ پہلی دفہ ہے جب ہم تینوں “نوجوان صحافیوں” نے آپس میں تعاون کیا اور ہم ایتھنز کے ایک بہترین فن گروہ “نظریہ” سے ملنے کے لئے تیا ہوئے۔ اس مختلف حصوں پر مشتمل، متنوع کمپنی کا آغاز لندن کی ایک خاتون نے سن 2017 میں کیا تھا۔ شروع میں گروپ میں صرف دو افراد ہی تھے، لیکن رضاکاروں کی تیزی سے شامولیت نے، اسے آگے بڑهایا اور اس کے پهیلانے مدد کی۔
گروپ کی پہلی نمائش موناسٹیراکی اسکوائر کے ایک کیفے میں ہوئی۔ یہ پروگرام اتنا کامیاب تھا کہ اس نے بہت تیزی سے دوسرے فنکاروں کی توجہ حاصل کی۔ گروپ کی سرگرمیاں وسیع ہوتی گئیں اور ان کے لیے ایک ایسی بڑی جگہ تلاش کرنا ضروری ہو گیا جس میں سب کی ایک ہی اسٹوڈیو میں جگہ بن سکے، جہاں وہ کام کرسکیں اور زیادہ آسانی اور جوش و خروش کے ساتھ شوز پیش کرسکیں۔
کمپنی نے ایک عمارت کمیونزم کے استعمال کے لئے نسبتا اچھی اور مؤثر سرمایہ کاری کرتے ہوئے معاہدے پر دستخط کردیئے، اور اسی طرح وہ خود کا اسٹوڈیو کھولنے میں کامیاب رہے۔ یہ وہ جگہ بن گئی ہے جہاں کوئی بھی اپنی فنی تخلیقی صلاحیت کی سمت اور طریقہ تلاش کرنا چاہے وہ آسانی اور اعتماد کے ساتھ کرسکتا ہے۔ دو ماہ کی محنت اور مشقت کے بعد، آخر کار ٹیم اپنی دوسری نمائش پیش کرنے کے لئے تیار تھی۔ اور پانچ ماہ بعد تیسری نمائش کے لیے۔
“تناظ” ہمیشہ کامیاب رہا، ہمیشہ سے لوگوں کو متوجہ کیا، اتنا کہ ہمارے اخبار کے دو صحافی اس کے ممبر بھی بن گئے۔ “نظریہ” نے اب بہت ساری شراکتیں تشکیل دی ہیں کہ اب وہ اپنے فنکاروں کا کام بیرون ممالک میں بھی دکھانے کے قابل ہیں۔
ایران سے تعلق رکھنے والے میرہارد، ٹیم کے ابتدائی ممبروں میں سے ایک ہیں۔ “جب میں ملاکاسا کے کیمپ میں ہی رہتا تھا، تب میں اپنا وقت پینٹنگ کر کے گزارتا تھا، جب تک کہ لندن سے تعلق رکھنے والی خاتون جو کہ نظریہ چلاتی ہیں انہوں نے مجھے نہ ڈھوڈا اور میں میں ان کی ٹیم میں شامل ہوگیا۔”
میرہارد نے پنسل سے ڈرائنگ شروع کی، لیکن اب وہ ڈرائنگ میں مختلف انداز اور تکنیک کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پینٹنگ آپ کو پرسکون کرتی ہے اور آپ کو مختلف رکاوٹوں اور مشکلات کے بارے میں جذباتی ہونے سے روکتی ہے۔ اس سے آپ کو اپنی ذاتی نفسیاتی پریشانیوں کا سامنا کرنے کی ہمت ملتی ہے۔ ایک پناہ گزین کی حیثیت سے، وہ اپنے کاموں میں ہمیشہ کسی نہ کسی طرح سے اپنے پناہ گزین ہونے کی علامت کو شامل کرتا ہے۔
شام سے تعلق رکھنے والے، لیف کے نام سے جانے جانے والے ویل کے کام مزید نڈر ہیں اور انہیں امید ہے کہ رنگ انہیں زیادہ شدت کے ساتھ اپنے اظہار کی اجازت دیتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اگرچہ فن دنیا کو تبدیل نہیں کرے گا، لیکن فن دنیا میں رنگ شامل کر سکتے ہیں، اصل فکر کی حوصلہ افزائی کرسکتے ہیں اور ضمیر کو جگا جاسکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تبدیلی کا معنی ہونے کے بجائے ایک میڈیم ہے۔ مثال کے طور پر، فن مہاجرین پر گزرے ہوئے حالت کیفیت اور صورتحال کا اظہار کرسکتا ہے لیکن اس سے ایسی چیزوں کا انکشاف بھی ہوسکتا ہے جن کے بارے میں انہوں نے کبھی اپنے آپ سے بھی نہیں کہا ہوتا۔
ارون، ایک پرانے ممبروں میں سے ایک، کا کہنا ہے کہ جب وہ پہلی بار اس میں شامل ہوئے تھے تو صرف پانچ شرکاہ تھے، جبکہ اب وہاں 50 سے زیادہ افراد موجود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پناہ گزینوں کی زندگی کے حالات کو تصویروں کے ذریعے پیش کرنا پسند کرتے ہیں، خاص طور پر خواتین اور بچوں کی، کیوں کہ ان کے تاثرات بہت واضح ہوتے ہیں۔
جمیل، ٹیم کے ایک اور ممبر، جو جاننے والوں کے ذریعہ “نظریہ” میں آیے۔ انہوں نے صرف 10 ماہ قبل پینٹنگ شروع کی تھی اور وہ ٹیم کے توسط سے تقریبا سب کچھ سیکھ چکے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ایک فنکار صرف اپنے کام کے ذریعے ہی اپنا اظہار کرسکتا ہے، اپنی مشکلات، اپنے درد، اپنے احساسات اور کوئی بھی ایسی چیز جس کو وہ بات چیت کے ذریعہ بیان نہ کرسکتا ہو۔
یہ ٹیم کے کچھ ممبر ہیں، لیکن بدقسمتی سے، اس میں خواتین بہت کم ہیں۔ اتنے سارے لوگوں، قوموں اور شخصیات پر مشتمل ایک اتنے اچھے، مضبوط گروپ کے لیے یہ اچھی چیز نہیں ہے۔ اس گروپ کے کچھ لوگوں سے بات کرکے، ہم نے یہ سیکھا کہ فن واقعی ہر فنکار کے خیالات کے جذبات، عقائد، نظریات اور مائل جذبات کا اظہار کرنے کا ایک عملی طریقہ ہے، کیونکہ ہر تخلیق بنائے جانے والے کی طرف سے معنی خیز ہوتی ہے۔
اس سے قطع نظر آیا کہ فن پناہ گزینوں کا اپنا اظہار کرنے کا طریقہ ہے، یا کسی مصور کی تخیل کا نتیجہ ہے، یہ محض اختتام تک کا راستہ ہے۔ یہ اظہار کا ایک ذریعہ ہے اور چونکہ یہ گروپ اتنا متنوع ہے، یہ واقعی انوکھا اور قابل ذکر ہے۔
Add comment