دن گزرتے چلے جاتے ہیں، لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ فیملیاں، بچے۔ ہم یہاں پچھلے سال آئے تھے، اب یہاں نئے لوگوں کی آمد ہوئی ہے۔ تاہم، جگہ وہی ہے۔
دو سال گزر چکے ہیں سستو کیمپ کے افتتاح کو، اور اب ہم وہاں کے حالات کے بارے میں لکھنا چاہیں گے۔
ہم اخبار “مہاجر پرندوں” کے دو نوجوان صحافی ہیں اور ہم کیمپ میں رہتے ہیں۔ ہم نے طویل عرصے سے مکیم لوگوں سے کچھ امور پر تبادلہ خیال کرنے کا فیصلہ کیا۔
شروع شروع میں، حالات بہت سخت تھے۔ چاروں طرف سے خیمے پانی سے گھیرے ہوئے تھے، گرمی کی شدت ناقابل برداشت تھی اور لوگوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جب کیمپ کھلا تو اس میں اتنے رہائشی نہیں تھے، لیکن بہت ہی کم وقت میں ان کی تعداد میں اضافہ ہوگیا۔ ایک مقام پر تو، پورے خاندان، بشمول ماؤں اور بچوں کو گود میں اٹھائے، کھانے پینے کا راشن لینے کے لیے شدید گرمی میں لمبی قطار میں کھڑا ہونا پڑتا، جو کہ دراصل بالکل نا قابل تحسین تھا۔ پھر سردیوں میں، بارش نے خیموں کو گندے پانی سے بھر دیا اور سب کچھ تباہ کردیا۔
بنیادی حفظان صحت عملی طور پر غیر موجود تھی جس کے نتیجے میں بنیادی طور پر چنبل جیسی بیماریاں، کیمپ کے چھوٹے بچوں میں پھیلی ہوئیں تھیں۔ لوگوں کو ٹھنڈے پانی سے نہانے کے لئے بھی قطار لگانی پڑتی جیسے انہیں کھانے کے لئے لگانی پڑتی تھی۔ وہاں سب کو غیر محفوظ محسوس کرتے تھے: وہاں نہ حفظان صحت تھا، اور نہ ہی کوئی معلومات۔ اور نہ ہی کوئی تنظیمیں مدد کی پیش کش کرتی تھی۔
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، مختلف تنظیمیں ہمارے ساتھ رابطے میں آنے لگیں۔
پھر بھی کسی نے، نوجوانوں کو تعلیم فراہم نہ کی۔ بالآخر، اور منفی حالات کے باوجود، کچھ لوگوں نے کیمپ میں کچھ بچوں اور نوجوانوں کو سیکھنے میں مدد کی پیش کش اور سبق پڑھانا شروع کردیے۔
تھوڑے ہی عرصے بعد، کیمپ کے رہائشیوں کی آواز سنی جائے، کی خواہش نے کچھ لڑکیوں کو ایک اخبار ترتیب دینے اور شائع کرنے پر مجبور کیا۔ جس سے کیمپ میں کی جانے والی ضروری بہتری میں بہت مدد ملی۔
شیسٹو کے کھلنے کے ایک سال بعد ہی، خیموں کی جگہ کنٹینر لگا ديئے گئے اور کھانے کی تقسیم کی جگہ لوگوں کو تھوڑی سی رقم فراہم ہونے لگی جس سے رہائشی اپنی پسند کی چیزیں خرید سکتے تھے۔ اب تو وہاں صفائی کے لیے ایک کمپنی ہے۔
اب بچے اسکول جاتے ہیں، حفظان صحت کے حالات – پہلے کی نثبت بہت بہتر ہو گئے ہیں – اور چیزیں عمومان بہتر ہوگئی ہیں۔ مختلف تنظیموں والے ہمیں ملنے آئے جہنوں نے ہمارے ایک یا دو طرفہ مسائل حل کرنے میں مدد کی۔ البتہ، کیمپ کے رہائشی اب بھی مکمل طور پر محفوظ محسوس نہیں کرتے۔ وہاں بہت سے مختلف ممالک کے شہری رہتے ہیں اور سب کو سب چیزوں کے بارے میں صحیح، درست معلومات کی ضرورت ہے۔
ہم نے مسٹر یورگوس کرولاگلو سے بات کی، جو وزارت ہجرت کی پالیسی میں کام کرتے ہیں اور جب سے ہم یہاں آئے ہیں اور جب تک ہم یہاں موجود ہیں، اس وقت تک وہ سستو میں واقع مہاجر کیمپ کے ذمہ دار ہیں۔
پناہ گزین کیمپ بننے سے پہلے اس جگہ پر کیا تھا؟
سستو پہلے ایک فوج کا چھوڑا ہوا کیمپ تھا۔ فوج کو اسے مہاجر کیمپ میں تبدیل کرنے کے صرف لگاتارمحنت اور مشقت کے سات دن اور راتیں لگی۔ یہ انفرادی خیموں کے ساتھ ساتھ بہت سے لوگوں سے بھرا ہوا تھا، جس میں تقریبا 2،000 دو ہزار افراد کو پناہ فراہم کی گئی تھی۔ اس کا 22 فروری 2016 کو باضابطہ طور پر افتتاح کیا گیا ھا اور اس میں افغانوں، شامیوں، ایرانیوں اور عراقیوں کو پناہ کے لیے رکھا گیا تھا۔
اب کیسے حالات ہیں؟
خیموں کی جگہ کنٹینرز نے لے لی اور جیسا کہ آپ اس کی تعریف کرسکتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں دوسرے بہت سے کام جیسے پمپنگ اور الیکٹریکل کے کام انجام دینے پڑے۔ ہم نے پہلے سے موجود دو بڑی عمارتوں کی تزئین و آرائش کی اور ایک میں 22 اور دوسری میں چھ کمرے بنائے۔ یہ کمرے ان نوعمروں بچوں کے غیر سرکاری اسباق کے لئے استعمال ہو رہے ہیں جو بچے اسکول نہیں جاتے۔ ادہر انہیں یونانی، انگریزی، جغرافیہ وغیرہ پڑھائی جاتی ہے۔ ہم نے ایک نرسری اسکول بھی قائم کیا ہے۔
اس کیمپ کی موجودہ صلاحیت کتنی ہے؟
چونکہ کنٹینرز کو زیادہ جگہ درکار ہوتی ہے، تو اس کیمپ میں زیادہ سے زیادہ 1000 افراد رہ سکتے ہیں۔
سیکیورٹی کی طرح کی ہے؟ اگر کوئی مسئلہ ہو جائے تو لوگ کہاں جا سکتے ہیں؟
اگر کسی کو کوئی پریشانی ہو تو ہم اس کی مدد کریں گے۔ یونانی پولیس کیمپ میں موجود ہے اور اگر کوئی خود کو غیرمحفوظ محسوس کرے تو وہ انہیں اطلاع کر سکتا ہے۔ پولیس تحقیقات کرے گی اور اس مسلہ کا حل تلاش کرے گی۔
آخر میں، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں امید ہے کہ جو لوگ یہاں رہتے ہیں وہ اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔
لہذا نتیجہ یہ ہے کہ سخت حالات زیادہ دیر نہیں رہتے۔ ہمیں صرف امید اور طاقت حاصل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم ان کے خاتمے کے لئے بھرپور کوشش کریں۔
Add comment