Photo by Mortaza Rahimi

ایتھنز میں ہمارا مقامی کھانے کا ذائقہ 

کھانا ہماری یادیں ہیں۔ کتنی بار ہمیں کھانے کے ذائقہ نے ماضی کے لمحات کی یاد دلائی ہے؟ اس مزیدار کھانے کی، جو اسکول سے گھر آنے کے بعد ہماری ماں ہمیں پیش کرتی۔ اس خوبصورت جگہ کی جہاں ہم نے سفر کیا ہو۔ کھانوں کا تعلق جزبات سے ہوتا ہے۔ ہم نے اپنے مقامی کھانوں کو ایتھنز کی گلیوں میں تلاش کیا۔ افغانی، ایرانی، پاکستانی اور ترکش کھانوں کو۔ ہم نے ان جگہوں کو ڈهونڈا، ادہر جا کر کھانا کھایا، احساسات سے دوچار ہوئے اور آپ کو بھی ادہر جانے کی تجویز کرتے ہیں۔

پاک تکہ میں مرغ بریانی۔

احتشام خان کی طرف سے۔

جب ہم ثقافت کی بات کرتے ہیں تو، ہمارے ذہن میں آنے والی پہلی چیزوں میں سے ایک کھانا ہے۔ لہذا، اس لیے میں اور میری ایک یونانی دوست مزیدار کھانوں کا ذائقہ لینے اور اس کا موازنہ پاکستان والے کھانے سے کرنے کے لیے پاک تکہ گئے، ایک پاکستانی ریسٹورنٹ جو پچھلے 10 سال سے ایتھنز شہر میں واقع ہے۔ 

نسیم نصر جنہوں نے ہمیں مرغ بریانی اور سلاد کی پیشکش کی، جوکہ ایک نہایت ہی نرم مزاج اور نیک شخصیت کے حامل تھے۔ جب میں نے اور میری دوست نے بریانی کا ذائقہ چکھا تو ہمیں واقعی بہت پسند آئ، اگرچہ وہ پاکستان میں نہیں بھی تھی لیکن اس بریانی کا ذائقہ حیرت انگیز تھا، بلکل ہماری توقع کے مطابق۔ میری یونانی دوست نے بریانی کو بہت پسند کیا۔ گو که اس نے کھانسنا شروع کردیا، کیونکہ اسے مسالہ دار کھانے کی عادت نہیں ہے! اس جگہ کو جنوبی ایشیاء کی ثقافتی منظر کشی کے ساتھ بہت ہی حیرت انگیز اور خوبصورت طریقے سے سجایا گیا تھا، جیساکہ باہر کی دیواروں پر بنی ہوئی بڑی بڑی تصاویریں، جو مجھے اپنے ملک پاکستان کی یاد دلاتی ہیں۔  

ممکنہ طور پر اس مضمون کو پڑھنے کے بعد، آپ مزیدار کھانے سے لطف اندوز ہونے کے لیے اس جگہ کا دورہ کرنا چاہیں گے، نہ صرف بریانی، بلکہ ہر پاکستانی اور ہندوستانی کھانے سے لطف اندوز ہونے کے لیے! 

معلومات: پاک تکہ، 5 سیپفوس سٹریٹ، ایتھنز۔
Fb: @Pak Tikka

Photos by Ihtisham Khan

فولیا میں منٹو

علی مظہر کی طرف سے 

فولیا” ایک افغان ریسٹورنٹ، جوکہ ایتھنز کے علاقے اگزارخیہ میں واقع ہے۔ پہلی بار اس کے دروزے پانچ سال پہلے کھلے تھے۔ اس کا مالک، رضا گولامی 14 سال پہلے یونان آیے تھے۔ انہوں نے “فولیا” سے پہلے کبھی بھی کھانے کی شعبے میں کام نہیں کیا تھا، لیکن نہوں نے بہت سی جگہوں پر ملازمتیں کی ہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے ترجمان کی حیثیت سے بھی کام کیا اور یہاں یونان میں،  کمپیوٹر سائنس میں اپنی تعلیم بھی مکمل کی۔ پھر بھی اسے ہمیشہ ایسا ہی لگتا تھا کہ اسے خود کچھ کرنا چاہئے، کچھ اپنا۔ رضا کہتے ہیں:”میں شخصیت کے طور پر ایک سماجی انسان ہوں، لہذا میں لوگوں سے بات چیت کرنا چاہتا تھا، جو مجھے بہت پسند بھی ہے”۔   

لوگوں کی جانب سے سب سے زیادہ پسند کیے جانے والے کھانوں میں منٹو، کابلی، اشک اور یقینا فالفیل شامل ہیں۔ ہم نے منٹو کے ساتھ ٹویسٹ کو چکھا۔ اصل نسخے میں گراؤنڈ گائے کا گوشت ہوتا ہے، لیکن “فولیا” میں وہ مرغی کے گوشت سے بناتے ہیں، تاکہ اس کا ذائقہ ان لوگوں کے لیے دوستانہ ہو سکے جو افغان کھانوں سے واقف نہیں ہیں۔ منٹو واقعی بہت مزے دار، مسالہ دار تھا اور میں اس بات سے مزید لطف اندوز ہوا کہ اسے چکن کے ساتھ تیار کیا گیا تھا، بلکہ ذائقے میں، ميں نے اسے اصل ڈش سے بھی بہتر پایا! اسے پلیٹ میں بہت رنگین اور عمدہ انداز میں پیش کیا گیا۔ 

رضا کے مطابق، “فولیا” کوئی ایسا ریسٹورنٹ نہیں ہے جو صرف اپنے ہم وطنوں کا ہی خطاب کرتا ہے، بلکہ سب کا کرتا ہے۔ اس کے 99٪ صارفین یونانی اور سیاح ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، “لہذا، میں” فولیا “کو ایک ایسی جگہ سمجھتا ہوں جہاں لوگ اپنی ثقافتیں بانٹ سکتے ہیں۔” 

جیساکہ انہوں نے “فولیا” کو اسی مخصوص جگہ میں ہی کھولنے کا انتخاب کیوں کیا، رضا کا کہنا ہے کہ وہ اس جگہ کو پسند کرتے ہیں کیونکہ وہ ایک آزاد اور رنگین علاقہ ہے۔ دراصل میں بھی پہلی بار اس علاقے میں گیا تھا “فولیا” کا دورہ کرنے کے لیے اور اس بات پر میں ان سے اتفاق کرتا ہوں۔ 

معلومات: فولیا، اینڈریا میتکسیا 9-11، ایگسزارخیا، ایتھنز۔
Fb: @foliamikri

Photos by Ali Mazher

مائنر ایشیاء میں بیتی کباب۔

مرتضیٰ رحیمی کی طرف سے۔

فرانسیسی اور چائنیز کھانوں ساتھ ساتھ ترکی کے کھانوں کا شمار بھی دنیا کے 3 بہترین کھانوں میں ھوتا ہے۔ چکھنے کے لیے 40 سے زائد مختلف قسم کے کباب، مختلف مصالحے اور ذائقوں کے ساتھ موجود ہیں۔ میں ایک طویل عرصہ ترکی میں رہ چکا ہوں اور میں نے وہاں کے مقامی کھانوں کو بہت پسند کیا۔ 

لہذا، جیساکہ کہ اب میں ایک یورپی ملک کے ایک بڑے شہر میں مجود ہوں، تو میں نے یہاں مقامی ترکش کھانوں کے بہترین ریسٹورنٹ کو ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ خوش قسمتی سے میں نے “مائنر ایشیاء” ریسٹورانٹ دریافت کرلیا۔ یہ اتنا مشہور ہے کہ جو لوگ تیسالونیکھی سے آدہر آتے ہیں اور وہ یہاں کھانا اپنے ساتھ ضرور لے کر جاتے ہیں۔ ان ریسٹورنٹ کا بکلاوا تو امریکا تک کا سفر کر چکا ہے! 

مجھے یاد نہیں ہے کہ، میں نے آخری بار کب ویٹر کو باورچی کی تعریف کرنے کا بولا! خوش قسمتی کے ساتھ میں نے اپنے آپ کو غیر معمولی پوزیشن میں اس جگہ کے مالک، ایوا، جو ایک باورچی بھی ہیں، ان کو اپنے پاس والے ٹیبل پر بیٹھے ہوئے پایا۔ میں نے مائنر ایشیاء کے سب سے مشہور اور منہ پانی لا دینے والی چیز “بیتی کباب” کا ذائقہ چکھا۔ یہ سیخ پر پکا ہوا گوشت ہے، جس کو لاوش میں لپیٹ کر، ٹماٹر کی چٹنی اور دہی اور چھ دیگر مختلف اقسام کی چٹنیوں کے ساتھ تلے ہوئے پتوں کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ میں ان کے خصوصی کسیر سلاد کے ذائقہ سے بھی دو چار ہوا۔ 

مائنر ایشیاء کا خیال ایوا کے والد کا تھا۔ اس کے والد نے میڈیسن کی تعلیم حاصل کی تھی، لیکن جب وہ یونان آیا تو وہ اپنے پیشے پر عمل نہ کرسکا، تو اس لیے اسے ریسٹورنٹ میں ملازمت کرنا پڑی اور پھر آخر کار اس نے اپنا ریسٹورنٹ کھولنے کا فیصلہ کیا۔ مائنر ایشیاء 20 سالوں سے خاندانی کاروبار ہے۔ ایوا کا کہنا ہے کہ اس نے 2000 میں امریکیس اسکوائر پر اپنے ریسٹورنٹ کے دروازے کھولے اور تین سال قبل انہوں نے پگراتی میں ایک اور برنچ کے دروازے کھولے ہیں۔  

جب میں نے پوچھا کہ اس ریسٹورنٹ کا نام “مائنر ایشیاء” کیوں ہے، تو ایوا کے الفاظ نے میرے چہرے پر مسکراہٹ لا دی۔ اس والد کے لیے یہ پناہ گزینوں کی علامت کے طور ہے، ان کے کہی سے آنے سے اور کہیں بھی جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لہذا جو بھی اس کے ریسٹورنٹ میں جائے گا تو وہ اسے اپنے “مائنر ایشیا”  جیسا ہی محسوس ہوگا، بلکل گھر کی طرح، میں نے بھی ایسا ہی محسوس کیا تھا جب میں وہاں پہلی بار گیا تھا۔ انہوں نے میری روح کو جھونکا دیا۔ میں جلد ہی “مائنر ایشیاء” دوبارہ جاؤں گا۔ “Aç daha fazlası için” جس کا ترکش میں مطلب “زیادہ کا بھوکا” ہے!  

معلومات: مائنر ایشیاء، 2108644698، تھراس اور موشونیسیون، امریکیس اسکوائر، ایتھنز۔
Fb: @asiakebap

Photos by Mortaza Rahimi

پارس میں کباب۔

مہدیہ حسینی کی طرف سے۔

ایتھنز کے عزیز دوستو، 

کبھی آپ نے ایران کا سفر کرنے کے بارے میں سوچا ہے؟ کیا آپ کو ایرانی موسیقی پسند ہے؟ کیا آپ کو ایرن کے شہروں کے بارے میں کچھ معلوم ہے؟ یا پھر آپ کو یہ ایک مہنگا سفر لگتا ہے، اس لیے آپ نے اس کی منصوبہ بندی کرنے کے بارے میں سوچا ہی نہیں۔ تو ہم آپ کو ایک آسان اور سستا طریقہ بتاتے ہیں۔ آپ “پارس” ریسٹورنٹ میں جا سکتے ہیں (پارس ایران کا پرانا نام تھا)، وہاں جا کر چھوٹے ایران کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ 

گرم اور پُرسکون ماحول، زعفران کی حیرت انگیز حوشبو، ایرانی دستکاری کی نمائش اور اچھے برتاؤ والا عملہ سب سے پہلے آپ کی نظر ہوگا۔ یہ ریسٹورنٹ ایرانی ثقافت کو یونانی لوگوں تک پہنچاتا ہے اور یہی ایک بنیادی وجہ ہے اس ریسٹورنٹ کا دورہ کرنے کی۔ ہم نے شیرازی سلاد، مست خیر، زیتون پروردھ اور ڈوغ کے ساتھ ایک مشہور ایرانی ڈش، کباب کوبھید، کا ذائقہ چکھنے کا انتخاب کیا، جس کو ہمیشہ ایک ڈرنک(مشروب) کے ساتھ پیش کی جاتی ہے۔ کباب کوبھید کو بکرے کے حلال گوشٹ سے بنایا جاتا ہے۔ یہ بہت ہی لذیذ اور رسیلا تھا، بالکل اسی طرح جیسے ایران میں پیش کیا جاتا ہے! آپ سب میرے دوست جو پہلے ایران میں رہ چکے ہیں، یا جو وہاں رہتے تھے، اگر آپ اپنی ماں یا دادی کے کھانے کی خوشبو کی کمی محسوس کرتے ہیں تو، آپ کو “پارس” محروم نہیں ہونا چاہئے۔ 

 چاول اور زعفران، جو کہ سونے کی طرح چمک رہے تھے، ذیتون سے تیار کردہ زیتون پاروردھ، انار کی چٹنی اور اخروٹ، ماسٹ کیر، جو کہ لہسن کے بغیر ٹزیکی کی طرح ہے، کٹے ہوئے ٹماٹروں، کھیرے اور پیاز سے بنا ہوا شیرازی سلاد، جس کو لیموں کے رس اور خشک پودینہ سے سجایا ہوا،  یہ سب چیزیں حیرت انگیز تھیں۔ 

 آخر میں ہم نے روایتی زعفران کی آئس کریم کھائی۔ میں مبالغہ آمیز نہیں ہوتی جب میں یہ کہتی ہوں کہ ان سب کی خوشبو جنت کی خوشبو کی طرح ہے۔ کیا آپ ایران کا سفر کرنے کے لئے تیار ہیں؟ کوئی سامان لے کر جانے کی ضرورت نہیں، آپ کو اس کی ضرورت نہیں پڑے گی، کیوں کہ “پارس” خلندری میں بنا ہوا ہے۔  

persianrestaurant.gr 

Photos by Mortaza Rahimi

پناہ گزین پرندے

Add comment