ہم سب کو اپنی زندگی میں کسی نہ کسی موڑ پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان حالات میں ہم عام طور پر دوستوں اور رشتےداروں سے رجوع کرتے ہیں، لیکن سب سے بڑی مدد جو ہم کسی ضرورت مند کو پیش کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم انہیں نفسیاتی علاج کی کوشش کرنے پر راضی کریں۔ یہ وہ بات ہے جو ہمیں بار بار کہی جاتی رہی ہے۔
جب بھی کوئی لفظ “مہاجر” سنتا ہے تو ذہن میں آنے والی پہلی چیزیں جنگ اور دہشت گردی ہوتی ہیں، لیکن اصل میں اس سے بھی بڑھ کر کچھ ہوتا ہے، جیسا کہ ہمارے نفسیاتی مسائل، پریشانی، خودکشی، خود اعتمادی کا فقدان، افسردگی، اور زیادتی کا شکار ہیں۔یہ کچھ بوجھ ہیں جو ہم اپنے کندھوں پر لیئے ہوے ہیں۔بدقسمتی سے، بہت سارے لوگوں کا ماننا ہے کہ تمام پناہ گزین نفسیاتی صحت کے مسائل دوچار ہیں اور اس وجہ سے معاشرے کے لئے خطرہ ہیں۔ لیکن یہ ایک غیر منصفانہ نظریہ ہے اور بہت ہی کم مہاجرین کو نفسیاتی مسائل کا سامنا ہے۔
در حقیقت ، ہمیں لوگوں کو اس طرح سوچنے سے روکنے کی کوشش کرنی چاہئے اوربلکہ حقیقی نفسیاتی پریشانیوں سے دوچار مہاجرین کے لئے امدادی نظام کا قیام عمل میں لایا جانا چاہئے ۔ہاں، مہاجرین کو اکثر نفسیاتی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ زیادہ تر لوگ ایسے ممالک سے آتے ہیں جن میں برسوں سے جنگیوں اور تشدد کا سامنا ہے، لہذا یقینا اس سب سے ان کی ذہنی صحت کو نقصان پہنچا ہوتا ہے۔
کیا ہم نے واقعتا اس بارے میں سوچا ہے کہ ہم واقعی نفسیاتی پریشانیوں میں مبتلا ان مہاجرین کی مدد کیسے کرسکتے ہیں؟ یا، بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح، کیا ہم بھی یہی مانتے ہیں کہ ایک نفسیاتی ماہر ہی وہ واحد فرد ہے جو مستحق افراد کی مدد کے لئے اہل ہے؟ اس کی ایک سائنسی بنیاد ہے، کیوں کہ ایک نفسیاتی ماہر یہ جانتا ہے کہ انسانی دماغ کس طرح سے کام کرتا ہے۔ تاہم، مجھے یقین ہے کہ تمام لوگ ایک دوسرے کی مدد کرسکتے ہیں ، اس صورتحال یا ماحول سے بے خبر ہو کر کی جس میں وہ خود کو پائیں۔میں وہ شخص ہوں جس کا یہ مانتا ہے کہ ایک مسکراہٹ دوسرے انسان کی زندگی اور تقدیر کو بدل سکتی ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ صرف پریوں کی کہانیوں میں ہوتا ہے۔
میں سمجھتی ہوں کہ ذہنی پریشانیوں کے شکار پناہ گزین، جو نفسیاتی ماہر سے ملاقات کرتے ہیں، انہیں سب سے بڑھ کر ایک سرشار اور ذمہ دار ترجمان کی ضرورت ہوتی ہے، جو کسی بھی نفسیاتی ماہر سے ملاقات کے دوران پناہ گزین کے درد اور تکلیف کو ماہر نفسیات تک پہنچانے لیے ان کی آواز بن سکے۔ يہ پناہ گزین کے احساسات کو سمجھنے کی طرف پہلا قدم ہے۔ ایک یورپی اور ایک پناہ گزین کے نفسیاتی مسائل ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ لہذا، دوسرا آپشن یہ ہوگا کہ ماہرین کی تربیت کی ایک الگ شاخ تشکیل دی جائے جو نفسیاتی تجزیہ کرنے میں مدد فراہم کرنے کے لئے تیار کیا جائے جس سے وہ اپنے پناہ گزین مریضوں کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہوں۔ میرے خیال سے تربیت میں ثقافت، تعلیم، عقائد اور مختلف ممالک میں پناہ گزینوں کی روایات کے اسباق شامل ہونے چاہیں۔
ان لوگوں کو معاشرے میں مکمل طور پر متحد ہونے کے لیے، انکی معاشرے میں قبولیت ضروری ہے اور ہمیں انکے ساتھ ہر ممکن تعاون کرنا چاہئے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ مہاجرین کو ترس اور شفقت کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے کے لئے ترس اور شفقت کے بارے میں سوچنا غلط ہے جیساکہ کہ وہ امداد کی شکلوں میں۔جسے لوگوں کو سمجھنے اور تسلیم کرنےضرورت ہے۔ بعض اوقات مسئلے کو حل کرنے کے لئے صحیح الفاظ کا استعمال اور تھوڑا سا وقت درکار ہوتا ہے۔دوسرے اوقات میں، ہم محض تبصرے نہیں بلکے اپنے ہم انسانوں کی ذہنی اور نفسیاتی حالت کے لئے اپنا احترام ظاہر کرسکتے ہیں۔
Add comment