میرا خیال سے سب سے ذیادہ ہمت کا مظاہرہ کرنے والے لوگوں کو اس تجربے سے سب سے زیادہ فائدہ ہوا ہے: دل سے جڑی چیزوں کو دور کرنے کے لئے بہت ہمت درکار ہوتی ہے، چھوٹے سے بیگ میں صرف چند کلو وزنی کچھ بنیادی ضروریات کی چیزیں لینا، آخری بار اس گلی اور مکان کو دیکھنا جس میں وہ رہتا ہو اور فاصلے سے اپنے شہر اور وقت کو دھندلا ہو کر ختم ہوتے ہوئے دیکھنا۔
جب آپ پناہگزین کی حیثیت سے سفر کرتے ہیں تو آپ کا دل کانپ جاتا ہے۔ وہ سفر آپ کی زندگی کی سب سے بڑی تبدیلی ہوتی ہے۔میں ان دوستوں اور جاننے والوں کو بھی دیکھتا ہوں جنہوں نے طویل عرصہ تک زندگی بسر کی ہوتی ہے، شادی شدہ ہوتے ہیں، اولاد والے ہوتے ہیں، کچھ سال محنت کی بھی کی ہوتی ہے، ان کے بچے اسکول بھی گئے ہوتے ہیں، اور میں انہیں ہجرت کے سفر میں شامل ہونے کا فیصلہ کرتے ہوئے دیکھتا ہوں۔میں حیران ہوتا۔ ان کے فیصلے سے نہیں، بلکہ ان کی طاقت سے۔
کیسے وہ تمام خطرات اٹھاتے ہیں اور اپنی زندگی کو الٹا سکتے ہیں؟ کیسے وہ ایک مختلف حقیقت میں داخل ہوسکتے ہیں، شروع سے ہی شروع کرسکتے ہیں، کیسے نئی چیزیں سیکھ سکتے ہیں جنہیں وہ پہلے سے ہی جانتے ہوں؟ کیسے وہ چھوٹے بچوں کی طرح بات کرنے، نئے حرف تہجی سے نمٹنے اور پڑھنے لکھنے کا طریقہ سیکھ سکتے ہیں؟ کس طرح سے وہ ان لوگوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے اہل ہیں جو ان سے بہت مختلف ہیں؟ کس طرح سے وہ پیسے کمانے کے لیے نئی ملازمتوں کی تلاش کرتے ہیں؟ اس سب سے پہلے، پیسہ کبھی بھی بڑی پریشانی نہیں تھا، لیکن اب یہ ہماری زندگی کو کچھ حد تک تحفظ فراہم کرتا ہے۔
یہ لوگ بڑے ہو چکے ہیں۔ وہ اپنی پریشانیوں کو کیسے بھول سکتے ہیں یا کسی دوسری زبان میں ان کی وضاحت کیسے کرسکتے ہیں؟ وہ اتوار کی دوپہر ایک کنٹینر یا چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں کیسے گذار سکتے ہیں، جنہوں نے اپنا بہت ساری کھڑکیوں والا پرانا گھر بیچا ہو؟
چھوڑنے کے لئے بہت طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لکڑی کے پل کو پار کرنے کے لئے آپ کو کتنا مضبوط ہونا چاہئے؟ کتنا عجیب ہوتا ہے سب کچھ چھوڑنا اور ہمیشہ کے لئے چھوڑنا؟ “ہمیشہ”۔ اتنا بھاری لفظ۔اتنا بھاری کہ آپ پر پڑے تو اس کا سراسر وزن آپ کو ہانپا دے۔ یہ واقعی عجیب ہے۔ کہ لوگوں کو اچانک سے اتنی طاقت مل جاتی ہے کہ وہ سب کچھ پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔
بہت سارے لوگ “پناہ گزین”‘ لفظ آسانی سے بول دیتے ہیں، لیکن انھیں یہ نہیں پتا ہوتا کہ وہ پیچھے کیا چھوڑ کر آئیں ہیں اور وہ کس سڑک پر سفر کر کے آئیں ہیں۔ کچھ پناہ گزین تو اپنے کسی عزیزوں کو اپنے سفر میں کھو دیتے ہیں، غالباً بھائی یا بہن کو بھی۔ جب ہم اپنا وطن چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو، نہ صرف ہم اپنا سب کچھ پیچھے چھوڑ دیتے ہیں، بلکہ ہم اپنی زندگی کو اپنی ہاتھیلی میں رکھ دیتے ہیں۔ ہم اپنی ذندگی کی بہتری کے لیے اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈالتے ہیں۔ آپ کو ہم پر ترس کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم یہاں آئے تھے تاکہ ہماری زندگی آگے چل سکے، تاکہ ہم اپنی زندگیوں کی تعمیر نو کرسکیں۔ آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ ہم کن چیزون گزر کے آئے ہیں۔
لیکن چلیں ہمارے اندر کے بوجھ کو دوبارہ کھودنے کی کوشش نہ کریں، یا اپنا ملک چھوڑنے کی وجوہات پر غور نہ کریں۔ آئیے پناہ گزیں ہونے کی ہمت سے فائدہ اٹھائیں اور ہر چیز کے لئے تیار ہوجائیں۔ آئیے ہم جنگجو بنیں اور اپنے جسم لوہے کی طرح سخت بنائيں۔ آئیے مضبوط ہوں۔
*یہ مضمون “پناہ گزین پرندے” اخبار کے شمارہ نمبر 12 میں شائع ہوا ہے، جسے 2 مارچ 2019 کو اخبار “افیمریدا تون سنتاکتن” (ایڈیٹرز کے اخبار) کے ساتھ ملحقہ کے طور پر جاری کیا گیا تھا۔
Add comment