پچھلے کچھ مہینوں میں جب سب اپنے اپنے گھروں میں تھے، پناہ گزین پرندوں نے بھی اپنا سفر تھوڑی دیر کے لئے روکا، اور اپنے گھونسلوں میں رہے۔ تو ہم ایک غیر معمولی تجربے سے گزرے: ایک وبائی مرض جس نے ہمیں ان چیزوں کا دبارہ احساس دلایا جنہیں ہم نے عطا کی گئی چزیں سمجھا تھا اور یکجہتی اور ٹیم کی کوشش کی اہمیت کو تسلیم کرنے کا بھی۔
اگرچہ ہم یہ سوچ کر حیران تھے کہ، جن کے پاس گھر نہیں ہیں وہ کیا کریں گے ہے؟ وہ لوگ خود کے تحفظ کے کیا اقدامات کرسکتے ہیں جو اس وبائی مرض سے پہلے سے ہی، حفظان صحت کے بنیادی اصولوں پر عمل کرنے کی کوشش کرنے میں ایک مشکل وقت سامنا کر رہے ہوں؟
قرنطینہ نے ہمیں الگ رکھا۔ یہ، کبھی کبھی بورنگ تھا، کبھی کبھی زہنی دباؤ کا بائث بنتا اور کبھی کبھی تخلیقی، چونکہ اس دوران ہم نے اپنی صلاحیتوں کو بھی تلاش کیا۔ ہم نے لکھائی کی، ہم چزیں بنائیں، ہم نے کھانا پکایا، ہم نے غیر ملکی زبانیں سیکھیں۔ اس دوران ہم نے اپنی ویب سائٹ، migratorybirds.gr کو بھی افزودہ کیا، جہاں اب آپ ہمارے اخبار کے تمام شمار تلاش کرسکتے ہیں۔ اس دوران ہم نے اپنے ریڈیو، ریڈیو ڈینڈیلین کو ایک پوڈ کاسٹ کے ساتھ دوبارہ متحرک کیا جہاں ہم نے بیان کیا کہ یہ عرصہ ہمارے لئے کیا معنی رکھتا ہے۔
ہماری ٹیم رابطہ میں رہی۔ ہم اپنے گھوںسلےمیں رہے، ہم سرگرم رہے۔ ہم خبریں دیکھ رہے تھے اور ہم اخبار کے 18 ویں شمارے میں ان چیزوں کے بارے میں لکھتے ہیں جو ہمیں فکر مند کرتی ہیں۔ لہذا، ہم اس وبائی مرض اور قرنطینہ کے بارے میں لکھتے ہیں جس کے پاس ہمیں بہت کچھ سکھانے کو تھا، بلکہ مواصلات اور انسانی تعلقات پر اس کے اثرات کے بارے میں بھی لکھتے ہیں۔ ہم یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ کیسے شیستو کے ریفیوجی کیمپ کے سیف زون میں رہنے والے بچوں نے اس عجیب و غریب صورتحال والی آزمائش کا سامنا کیا۔ ہم 21 ویں صدی کی نسل پرستی کے بارے میں بات کرتے ہیں جو جارج فلائیڈ کے معاملے اور “میں سانس نہیں لے سکتا” تحریک کی وجہ سے شروع ہوی ہے اور ہم پناہگزین کی رہائش کے معاملے پر بھی فکر مند ہیں۔ ہم اپنی نسل، جنریشن زیڈ، کے بارے میں اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں جو ٹیکنالوجی سے بہت ملتی جلتی ہے۔ اپنے آخری، خالی صفحہ میں ہم قرنطین کے جاگنے پر اپنے پیغامات بھیجتے ہیں۔
Add comment