Photo by Mohammad Sadegh Ebrahimi

بھٹکتے ہوئے بوسے اور گمشدہ گلے ملنے کا وقت

ہم اپنے پیچھے ایک بہت ہی عجیب و غریب وقت چھوڑ کر آرہے ہیں۔  ایک خوفناک، بخار کن، پریشانی والا وقت، جو در حقیقت ہم سب کے لئے ایک بہت بڑا سبق تھا۔ ان دنوں نے ہمیں یاد دلایا کہ زندگی ہمارے تصور سے کتنی چھوٹی ہے، کہ شاید ہمیں دوبارہ کبھی اپنے والدین یا پیاروں سے ملنے کا موقع ہی نہ ملے اور ہم ان سے آخری ملاقات کے لئے تڑپتے ہی رہ جائیں۔

میں اگلی آنے والی نسلوں کو بتاؤں گی کہ میں اس دور میں بھی رہی ہوں جب لوگوں نے اپنے ہی گھروں کی چار دیواری کے پیچھے خود کو بند کردیا تھا۔ ہزاروں کہانیاں گھروں کے دروازوں سے بہہ گئیں اور ہزاروں آوازیں بالکونیوں سے سنائی دیں۔ میں اپنی اولاد کو بتاؤں گی کہ 21 ویں صدی سن 2020 میں ہماری دنیا کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ 

میں انھیں بتاؤں گی کہ ہم کتنے دن گھروں میں رہے۔ ہم خوفزدہ تھے، ہم روئے، ہم افسردہ ہوئے، ہم کچلے گئے تھے! 

ہم ایک ایسی نسل تھے جس نے پھولتے درخت، بارش اور دھوپ کے دنوں والا پورا موسم بہار، گھر کے اندر بند رہ کر گزارہ۔ ہم ایک ایسی نسل تھے جو گلیوں میں اجنبیوں کی مسکراہٹوں کو یاد کرتے، کیوں کہ ہم قرنطین میں تھے۔ ہماری ملاقاتیں محدود تھیں، ہمارے تعلقات گلے لگانے یا چومنے کے بغیر ہی چلتے رہے تھے۔ ہزاروں بوسے گلیوں، پہاڑوں، وادیوں، سمندروں میں بھٹکتے پائے گئے، کیونکہ ہمیں معاشرتی طور پر فاصلہ رکھنا پڑا۔ 

ان دنوں کے میں یہ پیغام دیا جا رہا تھا کہ “اپنے ہاتھوں کو اچھی طرح سے دھوئے اور گھر میں رہیں”۔ لیکن انہوں نے لفظ “گھر” کیوں استعمال کیا؟ شاید اس لئے کہ گھر ایک محفوظ جگہ ہوتی ہے… لیکن بے گھروں کا کیا؟ خیموں اور کیمپوں میں رہنے والوں کو کیا کرنا تھا؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے ہاتھ پانی سے دھونے چاہیں، لیکن انہوں نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ اگر ہمارے پاس پینے تک کے لئے پانی بھی نہ ہو تو ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ 

آہستہ آہستہ یہ پیغام بدل گیا اور ہمیں دوسرے لوگوں سے دوری رکھنے کے لئے کہا گیا،  لیکن کسی نے بھی اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ آپ یہ اس کیمپ میں کیسے کرسکتے ہیں جہاں مناسب کمرے ہی نہ ہوں۔ ہم نے خالی گلیوں اور بھرے اسپتالوں کو دیکھا ہے۔ ہم نے فرشتوں کو اسپتالوں میں کام کرنے کے لیے زمین پر اترتے دیکھا ہے۔ 

ہماری نسل یہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اس طرح سے تمام کیفے، گرجا گھر، مساجد، سینما گھر اور پارکس بند ہوسکتے ہیں۔ ہماری نسل نے کبھی قرنطینہ میں جانے کا سوچا بھی نہیں تھا۔ ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہم موسم بہار کی دوپہروں کو پھولوں سے بنے ہوئے پیالے میں پیار کے ساتھ چائے بناکر، خواہش کریں کہ ہم اپنے پڑوسی کو پیش کریں۔ ساتھ رہنے کے لیے ہمیں الگ رہنا پڑا۔  اس تجربے سے، ہم نے آخر کار اپنے آپ کو بہتر جانا۔ ہم ذیادہ سمجھدار اور زیادہ شائستہ ہوگئے ہیں۔ 

 مجھے یقین نہیں ہے کہ میں اگلی نسل کو سمجھا سکوں گی کہ جنگیں کیوں نہ رکیں، یہاں تک کہ اگرچہ زندہ رہنے کا واحد راستہ گھر میں ہی رہنا تھا۔ مجھے ہچکچاہٹ ہوتی ہے یہ بتاتے ہوئے کہ کابل کے ایک اسپتال پر حملہ ہوا تھا اور کورونا وائرس کے لگنے سے پہلے ہی درجنوں خواتین، بچے اور نوزائیدہ بچے دم توڑ گئے تھے۔ 

میں اپنی نسل کو سمجھانے کے لئے کوئی راستہ تلاش کرنے کی جدوجہد کر رہی ہوں کہ وبائی بیماری کے دوران، امریکہ میں ایک سیاہ فام آدمی پولیس اہلکار کی ٹانگوں کے نیچے، یہ چیختے ہوئے جاں بحق ہو گیا کہ”میری گردن سے اپنا گھٹنا ہٹائو، میں سانس نہیں لے سکتا؟”۔ میں نہیں جانتا کہ آنے والی نسل کو یہ کیسے سمجھانا ہے کہ پوسٹ قرنطینہ کے بعد، یونان سیاحوں کو حاصل کرنے کی تیاری کر رہا ہے، لیکن مہاجرین کو ابھی بھی کیمپوں سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ یہاں ہزاروں کہانیاں ہیں، اور مجھے نہیں لگتا کہ اگر میں ان سب کو بیان کرنا چاہئے۔ ایک چیز جو میں یقینی طور پر ج اپنے بچوں کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ: “آنے والے دنوں میں محتاط رہنا”۔

Photo by Mohammad Sadegh Ebrahimi
Photo by Mohammad Sadegh Ebrahimi

Add comment