Landscape of the delta of river Evros, Greece

امید نہ ہاریں۔

2018 میں، جب میں 17 سال کا تھا، میں نے عراق چھوڑنے کا فیصلہ کیا، کیونکہ مجھے مذہب سے متعلق امور کا سامنا تھا۔ پھر میں ترکی گیا اور تین دن استنبول میں رہا، اس وقت تک جب  ایک دن انہوں نے مجھے بتایا کہ ہم نکلنے لگے ہیں۔ 

 ہم یونان کی طرف بڑھے۔ مجموعی طور پر ہم 12 افراد تھے- دو خاندان اورمجھ سمیت تین نوجوان، جو اکیلے سفر کرتے تھے۔ سڑک پر چلتے ہوئے میری ملاقات دیگر دو افراد سے ہوئی جن کا تعلق عراق سے تھا اور ہماری دوستی ہوگئی۔ ہم یونان ترکی بارڈر پر تھے، ہم چلتے رہے جب تک ہم ندی تک  نہ پہنچے۔ ادہر ہمیں بتایا گیا کہ ہمیں طلوع فجر تک انتظار کرنا پڑے گا، تاکہ ہم ندی کے دوسری طرف کے کنارے کو دیکھ سکیں۔ موسم بہت سرد اور بارش کا تھا اور ہم نے درختوں کے نیچے سونے کا فیصلہ کیا۔ 

میں سو کر اٹھا تو دیکھا میرے کپڑے بالکل گیلے تھے۔ پھر، ہم سب ایک کشتی پر سوار ہوئے اور دریا کو پار کیا۔ پھر ہم ایک ایسے راستے پر پہنچے، جہاں ایک سفید کار ہمارے پاس پہنچی۔انہوں نے ہمیں کہا کہ: “سب اپنے موبائل بند کرو اور وہ ہمیں پکڑا دو!”۔ میرے دوستوں نے مجھے کہا کہ یہ لوگ یونانی پولیس اہلکار ہیں جو ہم موبائل فون اور رقم لے کر ہمیں ترکی واپس بھیج دیں گے۔اس وقت میں نے ساری امیدیں کھو چکا تھا اور بہت اداس ہو گیا۔ آخر کار ، پولیس افسران نے ہمیں واپس ترکی نہیں بھیجا ، لیکن وہ ہمیں پولیس اسٹیشن لے گئے، جہاں انہوں نے ہمیں بتایا کہ ہمیں کیمپ میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ میں پرسکون ہوگیا اور ساری امیدیں واپس آگئیں۔ 

وہ ہمیں رجسٹریشن کے لئے لے گئے، جہاں انہوں نے ہماری ذاتی معلومات پوچھیں۔ جہاں میں ان کو یہ بتانے سے ڈر گیا تھا کہ میں کم عمر ہوں، کیوں کہ مجھے بتایا گیا تھا کہ کم عمر بچوں کو جیل بھیج دیا جاتا ہے۔تو میں نے ان سے کہا کہ میں 18 سال کا ہوں۔ تو انہوں نے ہمیں ایک بس میں بٹھایا جو ہمیں تھسالونیکی شہر میں لے گئی اور وہاں جا کر ہمیں چھوڑ دیا۔میرے دوست جلد ہی مجھے چھوڑ کر چلے گئے، وہ ایتھنز کے سفر پر روانہ ہوگئے اور میں بس اسٹیشن پر تنہا رہ گیا تھا، مجھے پتا نہیں تھا کہ کہاں جانا ہے۔ میں نے فیس بک کے ذریعہ اپنے ایک دوست سے رابطہ کیا اور اس نے مجھے شہر کے مرکز میں کی ہدایات دیں۔ میں نے ایک رات  ہوٹل میں گزاری اور دوسرے ہی دن میں دیاوٹا کے علاقے میں ایک کیمپ چلا گیا۔

کیمپ میں انہوں نے میرا ڈیٹا رجسٹر کیا اور بتایا کہ میں خیمے میں رہوں گا۔ میں نے وہاں دو مہینے گزارے۔کیمپ میں زندگی بہت مشکل تھی، خاص طور پر برف باری کے دوران۔ کم عمر بچوں کے لئے وہاں ایک عمارت تھی۔ج ب میں لوگوں کو بتا رہا تھا کہ میری عمر کم ہے انہوں نے کہا کہ مجھے اپنے دستاویزات پر اپنی اصل عمر لگانی چاہیئے، کیوں کہ کیمپ میں زندگی بالغوں سے زیادہ نابالغ بچوں کے لئے بہتر ہے۔ لہذا، میں تھیسالونیکی پولیس اسٹیشن گیا۔ میں بالکل بھی انگریزی نہیں بول سکتا تھا، لیکن میں ان کو سمجھانے میں کامیاب ہوگیا کہ میرے دستاویزات میں غلطی تھی۔انہوں نے مجھے کہا کہ کوئی غلطی نہیں ہے اور مجھے جانے کے لئے کہا۔ میں افسردہ اور مایوس ہوگیا۔میں نے فن لینڈ میں اپنے بھائی کو فون کیا، میں نے اسے سب کچھ بتایا کہ کیا ہوا اور اس نے مجھے انہیں انگریزی میں بات کرنے کے لئے ان سے بات کروانے کا مشورہ دیا۔ میں نے انہیں فون دیا، انہوں نے اس سے بات کی اور سمجھ گئے کہ انہیں میری معلومات کو ٹھیک کرنا ہے۔  

یونانی قوانین کے مطابق، میری رہائش کا بندوبست ہونے تک مجھے دوسرے کم عمر بچوں کے ساتھ جیل کے ایک کمرے میں رہنا پڑا۔ جیل میں موجود دیگر بچوں نے مجھے بتایا کہ میں وہاں ایک مہینہ سے زیادہ قیام کروں گا اور پھر شاید مجھے تھیلسونیکی یا ایتھنز سے بہت دور کسی کیمپ میں منتقل  کر دیا جاؤں گا۔ میں مایوس اور خوفزدہ ہوگیا، لیکن 16 دن کے بعد پولیس افسران نے مجھے بتایا کہ مجھے، ایتھنز میں، ہجرت کرنے والی بین الاقوامی تنظیم برائے پناہ گاہ میں منتقل کردیا جائے گا جہاں وہ میرا خیال رکھیں گے۔ میں بہت خوش ہوگیا! جب میں پہلی بار رہائش میں پہنچا تو وہاں ایک عربی ترجمان موجود تھا، جو مجھ سے بری طرح سے بات کر رہا تھا۔ شکر ہے، اگلے ہی دن میں نے ایک، بہت ہی مہربان ، مترجم ترجمان سے ملاقات کی جس نے میری مدد کی۔

سات مہینے رہائش میں رہنے کے بعد مجھے خاندانی اتحاد کی درخواست کا مثبت جواب ملا۔ میں فن لینڈ، اپنے بھائی کے پاس جاؤں گا، جسے میں نے پورے چار سال سے نہیں دیکھا! میں فنش سیکھوں گا، اسکول جاؤں گا اور سائنسدان بنن کے اور کائنات کا مطالعہ کرکے اپنے خوابوں کی پیروی کروں گا!

Add comment