مجھے اب بھی یاد ہے، گویا یہ کل کی ہی بات تھی، جب ہم اس اخبار کے پہلے شمارے کی پہلی برسی منا رہا تھے۔ ایک ایسا اخبار جو آٹھ ماہ کی مسلسل کوشش کے بعد شائع ہوا اور جس نے ہم نوجوان کو اخبار “پناہ گزین پرندے” بنانے والے صحافیوں میں بدل دیا۔ اور اب آپ ہمارے اخبار کے 20 ویں شمارے کو اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے ہیں! یہ ہماری کہانی کا ایک مختصر سا خلاصہ ہے، لیکن یہ ایک طویل کہانی ہے جو جوش و خروش اور جیورنبل سے بھری ہوئی ہے۔ اور کتنا اچھا اتفاق ہے کہ ٹیم کے بہت سے نوعمر ارکان اب 20 سال کے ہوگئے ہیں!
“پناہ گزین پرندے” اخبار ایک ایسے بچے کی طرح ہے جسے ہم نے جنم دیا اور اب وہ 20 سال کا ہو گیا ہے۔ بلکہ اب وہ بچہ نہیں رہا۔ اس نے بڑھاپے کے خوف کے ساتھ ساتھ زندگی میں خوشی کے ساتھ چلنا سیکھا، اپنی اٹھتی جوانی کو پیچھے چھوڑ کر اور جوانی کی طرف چلنا شروع کیا۔ اخبار کے ساتھ ہم بھی بڑے ہوگئے ہیں۔ مشکلات کے باوجود ہم میں سے ہر ایک نے اپنی قومیت، جلد کے رنگ، مذہب یا عقائد سے قطع نظر ہو کرہر چیز کو سلجھیا۔
ان 20 شماریات میں، ہم لفظی امتیازی سلوک، مسائل، عدم مساوات، خوبصورت یادوں اور یکجہتی، یعنی ان تمام اچھی اور بری چیزوں کا اظہار کر چکے ہیں جن کے ہم نے تجربے کیے ہیں۔ ہم نے اپنے خدشات ظاہر کیے، بعض اوقات ہمیں ان کے جوابات ملے اور بعض اوقات نہیں ملے۔ بیک وقت ہمیں ہمیں مثبت رائے ملی، باقی دفعہ نہ ملی۔ تاہم اب ہم بلند آواز میں کہہ رہے ہیں کہ ہم ان سارے لوگوں کی آواز بنتے رہیں گے جن کی آواز سنی نہیں جارہی ہے۔ اور ہم اپنی پوری کوشش کریں گے، تاکہ یہ اخبار، جو ہمارے لئے ایک بچے کی طرح ہے، وہ اور بھی بڑا ہوسکے۔
آئیے امید کریں کہ ایک دن ہم ایک پرامن دنیا میں اپنے جذبات کے بارے میں لکھ سکیں گے، بغیر عدم مساوات یا کسی جنگ کے!
Add comment