10 ستمبر ہفتہ وار، میرے لئے ایک ناقابل فراموش دن تھا۔ جب مسٹر ستیفانوس ہم سب کو گومانے کے لیے پارنیتھا پہاڑ پے لے کر گئے۔ مجموعی طور پر کل ملا کر ہم 18 بچے تھے جو ملاکسا کیمپ سے تقریبا ایک بجے کوچ کے ذریعے نکلے تھے۔ ہم ایک گھنٹہ بعد ادہر پہنچے، اور کیبل کار پر بیٹھ کر ہم سب پہاڑی کی چوٹی پر پہنچے۔ ہم ایتھنز کا خوبصورت منظر پہاڑ کی چوٹی سے دیکھ سکتے تھے اور یہ میری زندگی کے سب سے زیادہ یادگار دنوں میں سے ایک دن تھا۔
پھر ہمیں قریبی ہوٹل میں جانا تھا جہاں ہم نے رہنا تھا، جو ایک گھنٹے پیدل فاصلے کی دوری پے تھا۔ ہوٹل کے عملے نے ہمیں خوش آمد کہا، ہمیں کھانا دیا اور پھر ہمارے کمرے ہمیں دکھائے۔ ہم نے تھوڑی دیر کے لئے آرام کیا پھر ہم نے ہوٹل کے ارد گرد گوم کر اندر اور باہر سے دیکھا۔ آخر میں ہم نے اپنے عزیز دوست، آرش کی سالگرہ کا جشن بھی منایا۔ اگلے دن مسٹر سٹیفنانوس اور ارش نے پیانو بجایا اور کے ساتھ گایا بھی۔ ہوٹل کا عملہ خاص طور پر خوش ہوا جب انہیں پتہ چلا کہ ہم افغان ہیں، کیونکہ ہوٹل کا باورچی بھی افغانستان سے تھا۔
بہت خوشگوار دن کے بعد ہم کیمپ واپس آگئے۔ پارنیتھا کی سیر میری پہلی سیر تھی اپنے والدین کے بغیر اور کیبل کار میں میرا پہلا تجربہ تھا۔ ہم سب بہت خوش ہوئے اور مسٹر ستیفانوس کا خاص طور پر شکریہ ادا کیا جو ہمیں وہاں لے کر گئے تھے۔ وہ ایک بہت نرم دل انسان ہین جنہوں نے ہمیشہ ہماری مدد کی۔ ہمیشہ تارکین وطن بچوں کی حمایت کی اور دوسرے بچوں سے ہمیں کبھی مختلف نہیں سمجھا۔
میں سمیع اللہ ہوں میرا تعلق افغانستان سے ہے۔ میں 15 سالہ نوجواں لڑکا ہوں جو مالاکا کے پناہ گزین کیمپ میں رہتا ہے۔ مجھے یونانی زبان سیکھنے کی امید رکھتا ہوں، بلکہ جرمنی میں اپنے بھائی سے ملنے کی بھی۔ خر میں، مجھے امید ہے کہ افغانستان ایک محفوظ ملک بن جائے گا تاکہ اس کے لوگ امن میں رہیں۔
Add comment