تھوڑی دیر پہلے میں صحافت کی ایک کلاس میں تھا جس میں ہم “پناہ گزین پرندوں” کی حیثیت سے شرکت کرتے ہیں، اور موضوع یہ تھا کہ فوٹو گرافی کا عوامی رائے پر کیا اثر پڑتا ہے۔ ہم نے پچھلی دہائیوں کی 100 سب سے زیادہ اثر انگیز تصاویر کو دیکھا اور تجزیہ کیا۔ ان میں کیون کارٹر کی طرف سے لی گئی تصاویر بھی شامل تھیں جس کا عنوان: “ایک گدھ اور ایک چھوٹی بچی”۔
کارٹر ایک جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والا ایک فوٹو گرافر تھا، اور سوڈان کے ایک دور دراز گاؤں کے دورے پر، اس نے ایک چھوٹی سی لڑکی کو روتے ہوئے سنا۔ جب وہ اس لڑکی کے پاس پہنچا تو اس نے دیکھا کہ وہ غذائی قلت سے مر رہی ہے اور قریب ہی ایک گدھ اس کی طرف دیکھ رہا ہے، اس کے مرنے کا انتظار کر رہا ہے تاکہ وہ اسے کھا سکے۔ کارٹر نے 1993 میں اس تصویر کے لئے پلٹزر انعام جیتا تھا، لیکن اس لڑکی کی مدد کرنے کی بجائے تصویر لینے کے انتخاب کرنے پر اسے سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ بعد میں اس نے خودکشی کرلی۔
میں اسے دیکھ کر ہل گیا اور تقریبا آنسوؤں تک پہنچ آیا۔ کیونکہ جب ہم اپنے آبائی شہر موصل میں ناکہ بندی کی وجہ سے پھنس گئے تھے تو میں بھی اسی طرح بھوک کی حالت میں رہا تھا۔ محاصرہ کرنے والی فورسز نے ہمیں 6 ماہ تک خوراک اور پانی تک رسائی نہ دی تھی۔ اسی دوران، شہر میں، آئیسس(دائش) صرف اپنے ممبروں کو ہی کھانا دے رہی تھی۔ انہوں نے ہمیں کھانا دینے سے انکار کردیا، حالانکہ ہم نے اس کی ادائیگی کی پیش کش بھی کی تھی۔ شہر میں بہت سارے بے گناہ لوگ تھے، لیکن کوئی بھی انہیں کھانا نہیں دے رہا تھا۔
ہمیں محاصرے کا اندازہ تھا، لہذا ہم نے اس کے شروع ہونے سے کچھ دن پہلے ہی ذخیرہ کرلیا تھا۔ جیسے ہی یہ شروع ہوا ہم نے راشن کے استعمال میں کافی حد تک کمی لائی تاکہ اسے ذیادہ سے ذیادہ عرصے تک استعمال کیا جا سکے۔ ہمارے پاس کچھ اجزاء کے علاوہ بہت کم چیزیں رہ گئی تھیں۔ بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح، ہمارے پاس بھی کچھ سوکھی گندم رہ گئی تھی، کیونکہ انہوں نے ہم سے پانی دینے سے بھی انکار کردیا تھا۔ پانی حاصل کرنے کے لیے، ہمیں کنویں پر جانا پڑا لیکن سارا عمل بہت مشکل تھا کیونکہ ہمارے پاس صرف بالٹیاں تھیں۔ ہم انھیں کنویں میں گرا کر انہیں پینے، دھونے اور گھر صاف کرنے کے لئے پانی سے بھرتے۔ اگر ہم بم دھماکوں کی وجہ سے گھر سے باہر نہ نکل پاتے تو ہم چیزوں کا کم سے کم استعمال کرتے۔ پانی لاتے وقت ہم پر دراصل بم سے حملہ کیا گیا، لیکن ہم خطرے کے باوجود چلتے رہے، کیونکہ ہماری ضرورت اس قدر زیادہ تھی۔
محاصرے کے آخری دن ہمارا پڑوسی اپنے بیٹے کے ساتھ آیا اور کہا کہ انہوں نے دو دن سے کھانا نہیں کھایا اور اس کا بیٹا مذید کھانے کے بغیر نہیں رہ سکتا ہے، اسے ابھی کچھ نہ کچھ کھانے کی ضرورت ہے۔ جب ہم نے اسے اس خوفناک حالت میں دیکھا، بھوک اور پیاس سے بے ہوش ہوتے ہوئے، تو میرے بڑے بھائی نے ہمارا بچا ہوا کھانا اس کے لیے لے آیا۔ ہمارے پاس تھوڑے سے چاول اور تھوڑے سے ٹماٹروں کی چٹنی پڑی ہوئی تھی اور اس نے ادھے ہمارے پڑوسی کو یہ کہتے ہوئے دے دیے کہ یہ لیں “آدھا آپ کے لئے اور آدھا ہمارے لئے”۔
ہمارا پڑوسی جذباتی ہوگیا تھا کہ وہ خوشی سے رونے لگا اور ہماری نیک تمنائ کی خوائش کرنے لگا۔ ہم نے اسے کہا کہ کھانا بانٹنا ایک فریضہ تھا کیونکہ وہ خدا ہی ہے جس نے ہمیں اس سب نوازا۔ ضرورت کے وقت پڑوسیوں کو ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے۔
ہمارے اس واقعہ کے ایک دن بعد، سیکیورٹی فورسز کے ذریعہ موصل کے علاقے کو آزاد کرا لیا گیا۔ ہم نے جو کھانا بانٹا وہ محاصرے میں حتمی تھا۔ اس کے بعد سے کھانے کے لیے کھانے اور پینے کے لئے پانی تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ہم ایک بار پھر سے خوش تھے، کیوں کہ اب ہمیں مذید وہ خوف محسوس نہیں ہورہا تھا جو ہمیں آئیسس کے قبضے کے دوران محسوس ہورہا تھا، اور اس وجہ سے کہ ہم نے اس بھوک کو پیچھے چھوڑ دیا جس نے ہمارے شہر کو تقریبا مار دیا تھا۔
Add comment