Photo by Eurokinissi/ Γιάννης Παναγόπουλος

یونانی اسکول میں ایک مہاجر۔

ایران میں روشن مستقبل نہ ہونے کی وجہ سے دو سال پہلے میں یونان میں ہجرت کرگیا۔ سردیوں کے دنوں میں غیر قانونی طریقے سے یونان میں داخل ہوا اور پھر مجھے ایتھنز کے قریب ایک کیمپ میں منتقل کر دیا گیا۔ اس کیمپ میں، میں زندگی کے ہر شعبے اور مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ساتھ رہتا ہوں۔ شروع شروع میں میرا ان لوگوں کے ساتھ رہنا کافی مشکل تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے ان کس ساتھ رہنے کی عادت پڑ چکی ہے اور دوسروں کے ساتھ مثبت رویہ رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ 

میں 16 سالہ بچہ یونانی اسکول میں جاتا ہوں۔ میں نویں جماعت میں ہوں اور میرے تمام مضمون یونانی زبان میں ہیں لہذا مجھے اسی زبان میں تعلیم حاصل کرنا ہوگی۔ شروع شروع میں میرے لیے یونانی زبان بہت مشکل تھی۔ لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنا میرے لئے بہت مشکل تھا اور مجھے ان کی سمجھ نہیں آتی تھی۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، مجھے اور بھی انجان چیزوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 

مجھے ایران والے اسکول میں جانا پسند تھا اور وہاں مجھے اپنے دوستوں کے ساتھ رہنے میں خوشی محسوس ہوتی تھی۔ اس وقت میں ساتویں جماعت میں تھا اور اپنی کلاس اور اس ماحول میں سے کافی آرام دہ محسوس کرتا تھا۔ اسکول میں میرے بہت ذیادہ دوست تھے۔ کچھ کا تعلق ایران سے تھا اور دوسرں کا تعلق افغانستان سے تھا۔ مجھے ہم میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا تھا اور میں ہمیشہ ان کے ساتھ آرام دہ محسوس کرتا تھا۔ ہمارے درمیان ایک خاص قسم دوستی تھی حالانکہ ہم میں سے کچھ کا تعلق ایران سے اور کوچھ کا افغانستان سے تھا۔ ہم  اپنی مختلف قومیتوں کی وجہ سے کبھی بھی ایک دوسرے کا مذاق نہیں اڑایا۔ 

یونانی اسکول میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے دو سال ہوچکے ہیں۔ میں نے یہاں دوستی اور اپنے مسائل کے بارے میں کھل کر بات کرنے میں آسانی کا احساس محسوس نہیں کیا۔ میں یونانی اسکول میں دوست نہیں بنا سکا۔ بعض اوقات تو طلباء میرا مذاق اڑاتے ہیں کیونکہ میرں کسی دوسرے ملک سے آیا ہوں۔ ان میں سے کچھ خوفزدہ ہوتے ہیں۔ یہ مجھے اچھا نہیں لگتا۔ ان کے میں ساتھ فٹ بال نہیں کھیل سکتا اور نہ ہی گروپ والی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتا ہوں۔ 

مستقبل میں دماغی سرجن بننا چاہتا ہوں۔ میں ان مسائل کو اپنے مقصد کے راستے میں نہیں آنے دوں گا۔

محسن میرزائی۔

Add comment