رٹسونا کیمپ سے دنیا کو خط
میں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ اپنے ملک سے یوروپ پہنچنے کے بعد، مجھے اپنی تعلیم کے ناقابل تسخیر حق کا دعویٰ کرنے کے لیے احتجاج میں شامل ہونا پڑے گا۔
افغانستان میں طالبان کی صدارت اور اسکولوں پر ان کے حملوں اور ان کو بند کرنے کے فیصلے کے بعد مجھے تعلیم تک رسائی نہ ہونے کا خدشہ تھا۔
میں اسکول کی عمر کے 850 بچوں میں سے ایک ہوں جنہیں تعلیم کا یہ بنیادی حق نہیں دیا گیا ہے۔ میں ہر روز، اس وجہ کو تلاش کر تی ہوں جو ہمیں الگ کرتی ہے اور اس قانون سازی کو جو ہمیں اسکول جانے سے خارج کرتی ہے۔ لیکن، مجھے اس محرومی کی کوئی وجہ نہ مل سکتی۔
ہم 2500 افراد کی ایک چھوٹی سی کمیونٹی میں رہتے ہیں، جو کوڈ-19 وبائی مرض سے سب سے زیادہ متاثر ہے اور یہ قرنطین کے دوسرے مرحاہ میں مبتلا ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے لئے، قرنطین میں رہنے سے نہ صرف ہماری صحت کی حفاظت کا خدشہ ہے، بلکہ اس سے ہمارے تعلیم کے حق کو بھی خطرہ ہے۔
ایک اور سال کے لئے، اس بار کووڈ-19 کی وجہ سے، ہم اسکول جانے سے خارج ہوسکتے ہیں۔ ہم “مہاجر بچوں” کے لیے کسی استاد کو نہیں رکھا گیا، اور نہ ہی ہمیں اسکول منتقل کرنے کے لئے کوئی ٹرانسپورٹ سسٹم بنایا گیا۔ ہمیں کب تک اپنے مستقبل کے تباہ ہونے کا مشاہدہ قبول کرنا پڑے گا؟
بہادر بنیں! تصور کریں کہ آپ ہم میں سے ایک ہوں، تصور کریں کہ آپ کا بچہ بھی ہم میں سے ایک ہو۔ اپنے آپ کو ہمارے جوتے میں رکھ کر دیکھیں۔ صبح کے وقت، جب آپ اپنے بچوں کو اسکول جانے کے لیے تیار ہونے کے لیے جگاتے ہیں، تو اس وقت ہم سو رہے ہوتے ہیں۔ ہم سوئے رہتے ہیں، اس لئے نہیں کہ ہم اپنے دن ضائع کرنا چاہتے ہیں۔ ہم سوئے رہتے ہیں، کیونکہ ہمارے پاس کوئی تعمیری کام کرنے کے لیے نہیں ہوتا۔ سو کر، ہم کم از کم ایک ایسے کلاس روم کا خواب دیکھ سکتے ہیں جہاں ہم سیکھ سکیں اور ایک ایسے استاد کا خواب دیکھیں جو ہمیں سکھائے۔
جب آپ کے بچے آئینے کے سامنے اپنا منہ دھو رہے ہوتے ہیں، دانت صاف کر رہے ہوتے ہیں اور اپنے بالوں کو کنگھی کر رہے ہوتے ہیں، اور مسکراہٹ کے ساتھ اپنے دن کا آغاز کرتے ہیں، تو ہم (مہاجر بچے) اپنے مستقبل کی معدومیت کو گھور رہے ہوتے ہیں۔
آپ کے بچے اپنے مستقبل کی تعمیر کے لئے درکار توانائی حاصل کرنے کے لئے کھاتے ہیں، تو ہم اس یہودی بستی میں اپنی توانائی ضائع کررہے ہیں۔
جب آپ کے بچے کار کا ہارن سنتے ہیں جو انہیں بلاتا ہے اور آپ آخری منٹ کا استعمال کرتے ہوئے جلدی جلدی ان کی بیگ میں فلاسک(تھرماس والی بوتل) ڈالتے ہیں تو، ہم کیمپ کے لوگ عوامی ٹرانسپورٹ سروس حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہوتے ہیں اور، اس میں ناکام ہوکر، ایک سائیکل لے لیتے ہیں۔
یہ مناظر، یہ تضادات ہمارا روز مرہ کا معمول ہے۔ ہم کس طرح آپ کے بچوں کی صبح کے ان مناظر میں خود کو تلاش کرنے کو ترجیح دیں گے!
معاف کرنا اگر یہ الفاظ اور مناظر سخت اور تلخ معلوم ہوں۔ پھر بھی، آپ اپنے آپ کو ہمارے جوتوں میں ڈال کر تو دیکھیں، تعجب کریں کہ کیا آپ کے بچے ہم میں سے ایک بن سکتے ہیں۔ ہم جس امتیازی سلوک کا شکار ہیں وہ آپ کے بچوں کی برتری کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ جہاں ہم پیدا ہوئے ہیں اس کی بے وجہ حقیقت کی وجہ سے ہے۔ جب 7 سالہ بچہ اپنے تعلیم کے حق کے لئے مظاہرہ کررہا ہو تو کچھ نہ کچھ غلط ہوتا ہے!
کیا ہمارا تعلیم کے حق کے لیے پوچھنا کچھ زیادہ ہے؟
کیا کم از کم تعلیم کے لیے، یکساں سلوک کرنے کو کہنا کچھ زیادہ ہے؟
کیا یہ صحیح ہے، کیا یہ مناسب ہے کہ آپ کے ساتھ مجرمانہ سلوک اور امتیازی سلوک کیا جائے، کیوں کہ آپ کی جانوں کو خطرہ لاحق ہے، جبکہ ہمیں مزمتی طور پرخطرہ میں رہنا پڑتا ہے؟
Add comment