Photo by Morteza Rahimi

سستو کیمپ سے اطلاع دے دہا ہوں جو اس وقت قرنطین میں ہے

کیا دو ہفتے قرنطین میں رہن کا خیال آپ کو پریشان کرتا ہے؟ نہیں تو! پریشانی کی بات نہیں ہے! یہ تو صرف ان پناہ گزینوں کے لئے ہے کیمپ میں رہتے ہیں۔

لوگ ابھی سے ہی اپنے دوستوں اور کمیونٹی کی خوشی کی کمی محسوس کر رہے ہیں۔ خیر صرف ایک کپ ہی نہیں بلکہ، اتیکا میں موجود بہت سارے کیمپ اس وقت آئیسولیٹڈ ہیں۔ ایک بار پھر سے پناہ گزین کسی اور کی غلطیوں کی سزا بھگت رہے ہیں!

یہ 7 ستمبر کی شام تھی جس دن پولیس نے سستو پناہ گزین کیمپ کے دروازوں کو تالہ لگا دیا تھا۔ کیمپ میں کرونا وائرس کے ایک کیس کے بارے میں افواہ پھیلی تھی، لیکن کسی نے بھی اسے سنجیدگی سے نہ لیا۔ سب نے سوچا کہ یہ صرف ایک رات کی بات ہے لیکن مجھے معلوم تھا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ دوسرے دن میں صبح سویرے جلدی اٹھ کر جلدی سے ایک دوڑ لگانے کے لیے نکل پڑا۔ عام طور پر، جب میں اپنی والدہ اور چھوٹے بھائی سے ملنے کے لیے کیمپ میں جاتا ہوں، تو میں دوڑ(رننگ) کے لیے جانا پسند نہیں کرتا۔ لیکن صبح کی خواہش اور آدھے کیمپ کو سوتے دیکھنا اتنا مشکل تھا کہ میں اس کے بارے میں سوچھ بھی نہیں سکتا تھا۔ میرے خیال سے میں سب کچھ ٹھیک ہے سمجھ کر اپنے آپ کو بیوقوف بنانا چاہتا ہوں ہے۔  

جب میں نے کیمپ کے مینجمنٹ آفس کے آس پاس لوگوں کے ایک بہت بڑا ہجوم کو دیکھا جو مینجمنٹ کے آنے کا انتظار کر رہے تھا، بلکہ ان مہاجرین کو بھی جو اپنی نوکریوں پر جانا چاہتے تھے اور کیمپ کے اندر کام کرنے والے باہر سے اندر جانے کے منتظر تھے، تب ہی مجھے احساس ہوا کہ ہم سرکاری طور پر قرنطینہ میں ہیں۔ 

آپ کو پتہ ہے اس احساس کا جس میں آپ کا پورا جسم اور دماغ خالی محسوس کرنے لگتا ہے اور آپ کچھ کہنا یا کسی قسم کی حرکت محسوس نہیں کرتے۔ جسے گھبراہٹ کا حملہ کہ سکتے ہیں۔ پہلی بات جو میرے ذہن میں آئی وہ یہ تھی کہ میں تو یہاں رہتا ہی نہیں ہوں۔ مجھے یہاں سے نکلنا ہے! لیکن وہاں سے نکلنا اس کا جواب نہیں ہے۔  میں صحت مند ہوں یا نہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، مجھے حصہ لینا پڑے گا اور دوسری جانوں کو بھی خطرہ میں نہیں ڈالوں، پہلے سے ہی کمزور صحت کی دیکھ بھال کے نظام پر بوجھ نہ بنوں۔ 

جب آپ سارا دن اپنے خیالات کے ساتھ تنہا بیٹھ کر گزارتے ہیں تو سازشی تھیوری کی تلاش میں حقیقت پر سوال اٹھانا ایک تیز اقدام ہے۔ یہ پورے ملک میں لاک ڈاؤن کی طرح نہیں ہے، یہ تجربہ مختلف ہے۔ یہاں جیل کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ دروازوں پر تالے لگ چکے ہیں اور پولیس کیمپ کے چاروں طرف ہے۔ عام طور پر لاک ڈاؤن کے دوران، آپ کو سپر مارکیٹ اور دیگر مقامات پر جانے کی اجازت ہوتی ہے، لیکن اب حالات مختلف ہیں۔ 

یہ سب اس وقت شروع ہوا جب وہ مہینوں سے وکٹوریہ اسکوائر پر رہنے والے پناہ گزینوں کو سستو اور دیگر مہاجرین کے کیمپوں میں لائے۔ کیا ان کو یہاں لانے سے پہلے ان کے کوویڈ 19 کے ٹیسٹ کیئے گئے تھے؟ اب اس میں کس کی غلطی ہے؟ ہم کس پر الزام لگائیں؟ پناہ گزینوں پر یا حکومت پر؟ ان کی یہاں منتقلی کے صرف کچھ دن بعد ہی، کورونا کا ایک کیس سامنے آیا۔ کیا انہیں ہماری پرواہ ہے؟ ہم بھی انسان ہیں۔ میرا مطلب کہ 1000 سے زیادہ افراد تکلیف میں مبتلا ہیں اور ان میں سے کچھ اپنی ہی غلطی کی وجہ سے اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔  وہ مقامی لوگوں کی پرواہ کرتے ہیں لیکن کیمپوں اور پناہ گاہوں میں رہنے والے لوگوں کے بارے میں کیا سوچا ہے؟

لاپرواہ ہونے کے لئے آپ کا شکریہ!

مرتضیٰ رحیمی

Add comment