Photo by Migratory Birds Team

شیکسپیئر کے پردے کے پیچھے باصلاحیت نوجوان

آپ کے خیال سے نوجوانوں کے لئے تھیٹر کیا معنی رکھتا ہے؟ موسیقی اور رنگین ملبوسات کے ساتھ ہو نے والی ایک بورنگ براہ راست کارکردگی؟ پھر آپ نہیں جانتے کہ آپ واقعی ایک طاقتور، کشش اور دل کو چھو دینے والے تجربے سے محروم ہیں۔

“دنیا بھر میں فنکار نوجوانوں کے لئے ایک نئے قسم کا تھیٹر تیار کر رہے ہیں جو رقص اور اداکاری کی خوبصورتی کو آپس میں جوڑتا ہے۔”  جیہ نیٹ ورک فور چلڈرن رائٹس کے پمفلٹ پر لکھا تھا اور جس نے میری توجہ کو اپنی طرف کھینچا۔ 

آج کل نوجوانوں میں زیادہ سے زیادہ تھیٹر کے پختہ نظریات دیکھنے میں آرہے ہیں، جسے ہم ہیملیٹ پیش کرنے والے نیٹ ورک کے یوتھ تھیٹر گروپ میں دیکھ سکتے ہیں۔ 

یہ سب نیٹ ورک کے یوتھ سینٹر سے شروع ہوا۔ اگر ڈرامے کی بات کریں تو اس کا تعلق شیکسپیئر کے “ٹریجڈی آف ہیملیٹ، پرنس آف ڈنمارک” کے ساتھ تھا۔ پر تھیٹر نوجوانوں کو کس طرح سے متاثر کرسکتا ہے؟  

“میں ذیادہ بڑ چرھ کر نہیں بولوں گا، لیکن اس دنیا میں زہر  ہمدردی کی کمی کی وجہ سے پھیلتا ہے۔ ہم ایک دوسرے سمجھتے ہی نہیں ہیں اور بلکہ ہم سمجھنا  ہی نہیں چاہتے، لیکن تھیٹر ہمیں ہمدردی کی دعوت دیتا ہے – نہیں، بلکہ ہمیں ہمدردی پر مجبور کرتا ہے۔ تھیٹر ہمدردی کے جم جیسا ہے، جہاں ہم ہمدردی کے پٹھوں کی ورزش کرنے کے لئے جاتے ہیں، جہاں ہم ان لوگوں کے ساتھ مل کر سننے، سمجھنے کی پریکٹس کرنے کے لئے جاتے ہیں جو بلکل ہماری طرح نہیں ہیں،” شتھیٹر میں مرکزی کردار ادا کرنے والے نوعمر لڑکے نے کہا۔ 

میں ان کے ساتھ اتنا مشغول ہوگیا، کہ 21 اکتوبر کو ایتھنز کے توپوس الو تھیٹر میں مجھے ان کا ڈرامہ دیکھنے کے لئے بلانے کے بعد، میں نے ‘ہیملیٹ’ گروپ کے بارے میں لکھنے کا فیصلہ کیا۔ ڈرامے کے بعد میں نے ہدایت کاروں، اداکاروں اور اداکاراؤں کا انٹرویو لیا۔

“تھیٹر کی پہلا ورکشاپ جوکہ جولائی 2017 میں ایتھنز میں ہوئی اور ایک ہفتہ تک جاری رہی۔ اس کی تجویز اور اس کا اہتمام فرانسیسی تھیٹر کے گروپ ’جی پارس اے زارت‘ نے کیا تھا، جو سات نوعمروں اور دو بالغوں پر مشتمل تھا۔ ہم نے مل کر ورکشاپ میں حصہ لیا اور یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ اس اچھے تعاون کے نتیجے میں، فرانسیسی گروپ نے مزید مشترکہ ورکشاپوں کے لئے یورپی پروگرام ایراسمس پلس کو درخواست جمع کروائی، اور اس درخواست کو قبول کرلیا گیا۔ اس پروجیکٹ کا نام سٹی زن شپ رکھا گیا تھا اور 2017-18 کی اسکیم میں یونانی گروپ شامل تھا جس میں انہوں نے اپنی کارکردگی پیش کرنے کے لئے فرانس کا سفر کیا۔ اکتوبر 2017 میں، ہم نے آٹھ شرکاء اور 2 کوآرڈینیٹرز کے ساتھ ہر جمعرات کو دو گھنٹے کے اجلاس کرنا شروع کیے۔ کچھ نوعمروں کو تھیٹر کا بلکل تجربہ نہیں تھا تو لہذا ہم نے پہلے تین ماہ تک تھیٹر والی گیمز کھیلیں۔بالآخر اس گروپ کو ایک متن(لکھائی) دی گئی، خاص طور پر شیکسپیئر کے ہیملیٹ، جسے ڈائریکٹر اسمینی پرویو نے منتخب کیا تھا۔ن ومبر 2017 میں، فرانسیسی گروپ کے دو کوآرڈینیٹر کٹھ پتلوں اور کٹھ پتلیوں کے ساتھ کٹھ پتلی تھیٹر ورکشاپ کا انعقاد کرنے کے لیے ایتھنز آئے۔ آہستہ آہستہ اور مستقل طور پر، اس گروپ نے متن پر کام کرنے اور ہیملیٹ کی فلمیں دیکھنا شروع کیں۔ 21 جون 2018 کو، ہم نے مونٹ پیلیئر کا سفر کیا جہاں ہم دس دن رہے۔ ہم نے پہلے چار دن فیسٹیزات کے کیمپ کے اندر خیموں میں گزارے، میلا جی پارس اے زارت کے زیر اہتمام تھا۔ میلے دروازے سب کے لئے کھلے تھے اور اس پروگرام میں تھیٹر کی پرفارمنس، محافل موسیقی اور تمام عمر کے لوگوں کے پروگرام شامل تھے۔ شروع میں، بچوں کو یہ کافی مشکل لگا کیونکہ وہ اپنے والدین سے بہت دور، ایک غیر ملک میں تھے، لیکن انہیں اس کی عادت بہت جلد ہوگئی۔ 24 جون کو، ہم نے یونان میں بہت ذیادہ حاضرین کے سامنے ہیملیٹ شو پیش کیا۔ 25 تاریخ کو، ہم شہر والی رہائش میں منتقل ہوگئے۔ہمارے شیڈول میں روزانہ ورکشاپس، شہر کی سیر اور فرانسیسی نوجوانوں کے ساتھ وقت گزارنا شامل تھا تاکہ ان کی طرز زندگی کے بارے میں مزید معلومات حاصل کی کرسکیں۔ یونانیوں اور فرانسیسیوں نے ایک ساتھ بہت اچھا وقت گزارا۔ ہمارے آخری دن، 29. جون کو، ہم سب نے مل کر ایک ساتھ ایک ڈرامے میں شرکت کی۔ہم نئے تجربات اور بہت سی یادوں کے ساتھ 30 جون کو یونان واپس آگئے۔ اس جولائی میں، فرانسیسی نوجوان یونان آئیں گے، پروگرام کی ڈائریکٹر، واسیلیکی پاپاجورجیو نے ہمیں بتایا۔

مجھے ڈرامے میں پرفارم کرنے والے کچھ باصلاحیت نوجوانوں کے ساتھ بھی گفتگو کرنے کا موقع ملا۔

ایلینا میا سے جب ان کے تجربے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا، “میرا کوئی سابقہ ​​تجربہ نہیں ہے، تھیٹر میں یہ میرا پہلا موقع تھا اور میں بہت شرمندہ اور گھبرایا ہوا تھی، کیونکہ مجھے بہت زیادہ حاضرین کا سامنا کرنا پڑا۔”

 کاسٹنگ کے عمل کے بارے میں صوفیہ ایس کا کہنا ہے کہ، ” اس سے پہلے بھی میرا تھیٹر میں کچھ تجربہ تھا، تو لہذا کاسٹنگ ڈائریکٹر نے مجھے اوفیلیا کے والد کی حیثیت سے ناٹک میں شامل کیا۔ میں اوفیلیا کا کردار کرنا چاہتی تھی لیکن میں نہ کر پائی۔

اس ڈرامے میں ان کے کردار کے بارے میں پوچھنے پر انس میا نے ہمیں بتایا، “میں نے فوج کا سینٹینیل مارکلس اور دو قبر کھودنے والوں میں سے ایک کا کردار ادا کیا۔ بادشاہ ہیملیٹ کو اس کے ہی بھائی نے قتل کیا تاکہ وہ اس کا تخت سنبھال سکے۔ بادشاہ ہیملیٹ کے بیٹے کا بھی وہی نام تھا جو اس کے والد تھا۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ اس کے اپنے چچا نے ہی اس کے والد کو زہر دیا تھا۔ اپنے بھائی، بادشاہ ہیملیٹ کے قتل کے بعد، چچا نے تخت سنھبال لیا اور اپنے ہی بھائی کی بیوی سے شادی کر لی۔ جببادشاہ ہیملیٹ کے بیٹے کو پتہ چلا کہ اس کے ولد کا قتل اس کے چچا نے کیا ہے، تو اس نے  پاگل بننا شروع کردا جس سے وہ اپنے والد بدلہ لے سکے۔ 

کنگ ہیملیٹ کے بیٹے کا کردار ادا کرنے والے نوعمر ایشیاء اوبامونی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے، ہمیں ان کی کارکردگی کے دوران احساسات کے بارے میں پتہ چلتا ہے، “اپنے دوستوں کے سامنے اداکاری کرنا مذاق ہے لیکن اتنے بڑے مجمعے کے سامنے اداکاری کرنا مشکل ہے۔۔۔ جہاں تک مشکلات کے سامنے بات ہے تو وہ تو ہمیں شروع میں ہی بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن اب ہم اس کے عادی ہوگئے ہیں۔ سامعین بہت دوستانہ تھے۔

تھیٹر گروپ آف ہیملیٹ کے ساتھ گفتگو کرنے کا ایک اچھا تجربہ تھا۔ میں نے یہ ڈرامہ دیکھا جو کہ یونانی زبان میں تھا، لیکن میرے دوست نے میرے لئے اس ڈرامے کا ترجمانی کی۔ اگر آپ کسی بچے کو تھیٹر میں لے کر  جاتے ہیں تو نہ صرف وہ ہمدردی کے بارے میں سیکھے گا، بلکہ وہ ہنگامہ آرائی کے ساتھ ہنس سکتا ہے، یا تاریخ اور شاعری کے بارے میں گانگناتے ہوئے گھر واپس آسکتا یا تنازعہ کو سنبھالنے کا طریقہ سیکھ سکتا ہے، یا حتی کہ تھیٹر، فنون اور لطیفہ کے سرپرست بننا شروع کر سکتے ہیں۔ان کے ساتھ تجربے کی وجہ سے میں بھی ان کے تھیٹر گروپ میں شامل ہوگیا۔

Photo by Migratory Birds Team

مرتضیٰ رحیمی

Add comment